براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ اَعُوْذُ بِا للہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَوَ لَمۡ یَرَ الۡاِنۡسَانُ اَنَّا خَلَقۡنٰہُ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ فَاِذَا ہُوَ خَصِیۡمٌ مُّبِیۡنٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلۡقَہٗ ؕ قَالَ مَنۡ یُّحۡیِ الۡعِظَامَ وَ ہِیَ رَمِیۡمٌ قُلۡ یُحۡیِیۡہَا الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَہَاۤ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ؕ وَ ہُوَ بِکُلِّ خَلۡقٍ عَلِیۡمُۨ ؎ کیا اس آدمی کو جو بعث کا انکار کرتا ہے یہ معلوم نہیں کہ ہم نے اس کو ایک حقیر نطفے سے پیدا کیا ہے جس کا مقتضا تو یہ تھا کہ اپنی اس ابتدائی حالت کو یاد کرکے اوّلاً بوجہ اپنی حقارت اور خالق کی عظمت کے جرأتِ انکار و گستاخیِ اعتراض سے طبعاً شرماتا، ثانیاً خود اس حالت سےصحتِ بعث پر عقلاً استدلال کرتا۔ سو اس نے ایسا نہ کیا بلکہ برخلاف اقتضائے مذکورہ علانیہ اعتراض کرنے لگا اور وہ اعتراض یہ کہ اس نے ہماری شان میں ایک عجیب مضمون بیان کیا، عجیب اس لیے کہ اس سے انکارِ قدرت لازم آتا ہے اور اپنی اصل کو بھول گیا کہ نطفۂ حقیر ہے جس سے ہم نے اس کو انسان بنایا ورنہ طبعاً اورعقلاً ایسی بات نہ کہتا اگر اپنی اصل کو نہ بھولتا۔ کہتا ہے کہ ہڈیوں کو خصوصاً جبکہ وہ بوسیدہ ہوگئی ہوں کون زندہ کرے گا۔ آپ جواب دیجیے کہ ان کو وہ زندہ کرے گا جس نے اوّل بار ان کو پیدا کیا ہے جبکہ وہ حیات سے بہت بعید تھیں۔ اب تو وہ ایک بار حیات کو بھی قبول کرچکی ہیں، اور وہ سب طرح کا پیدا کرنا جانتا ہے ابداء بھی اعادہ بھی،اس کو کچھ مشکل نہیں۔ (بیانُ القرآن، پ:23) ------------------------------