براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
حق تعالیٰ شانہٗ کی اس نعمت کا میں شکر گزار ہوں کہ اس آیت کی عجیب وغریب ایک تفصیلی تقریر میرے دل میں وارد فرمائی ہے اور اس تفصیل کے پیشِ نظر قیامت کا وقوع اس قدر بدیہی ہوجاتا ہے کہ کوئی دہریہ اور ملحد ان شاء اﷲ تعالیٰ اس تقریرکو سن کر انکار کی گنجایش نہیں پاسکتا اور یہ حق تعالیٰ شانہٗ ہی کی طرف سے انعامِ عظیم ہے۔ وہ تقریر یہ ہے کہ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: اَوَلَمْ یَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقۡنٰہُ مِنْ نُّطْفَۃٍ ؎ کیا آدمی کو یہ نہیں معلوم کہ ہم نے اس کو نطفے سے پیدا کیا ہے۔ اس سوال ہی کے اندر حق تعالیٰ شانہٗ نے دوبارہ پیدایش اور اثباتِ قیامت کا نقشہ کھڑا کردیا ہے۔ یعنی میاں نے اس سوال سے یہ بتادیا کہ اے انسان!تیرا یہی نشرِ اوّل ترے نشرِثانی کے لیے نمونہ اور دلیل ہے جسے ہر وقت تو اپنے اندر دیکھ رہا ہے۔ اس آیتِ کریمہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک مشرک آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلّم کے پاس ایک بوسیدہ ہڈی لے کر آیا اوراس ہڈی کو خاک میں ملا کر ہوا میں اڑا کر کہنے لگا کہ کیا اسی کو خدا دوبارہ پیدا کرے گا؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ ہاں! حق تعالیٰ تیری یہی حالت ہوجانے کے بعد تجھے دوبارہ پیدا فرماکر تجھے پھر جہنم میں دھکیل دے گا۔ اسی واقعے پر یہ آیت نازل ہوئی کہ کیا انسان کو یہ نہیں معلوم کہ ہم نے اس کو نطفے سے پیدا کیا ہے۔ اس آیت کے اندر حق تعالیٰ شانہٗ نے منکرینِ قیامت کو ایسا جواب ارشاد فرمایا ہے جو ان کے روزمرہ مشاہدات میں ہے اور ہر ایک انسان پر خود بیتی حقیقت ہے۔ حق تعالیٰ شانہٗ نے اپنے اسی جواب کی تفصیل میرے قلب میں وارد فرمائی ہے،وہ یہ ہے کہ انسان کی پہلی پیدایش جب نطفے سے ہوئی ہے اور یہ امر بالاتفاق تمام روئے زمین کے عقلاء کا مسلّمہ ہے، کسی کو بھی اس بات میں اختلاف نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ نطفہ کس چیز سے پیدا ہوتا ہے؟ اس نطفے کے اجزاء کہاں کہاں تھے؟ اور کس کس رنگ و بو میں تھے؟ پھر حق تعالیٰ شانہٗ نے ان اجزائے منتشرہ کو کس طرح نطفے میں جمع فرمایا؟ ان سوالات میں اب تفصیلی غور و فکر درکار ہے۔ ------------------------------