براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
تو پھر مذکور کی رِفعتِ شان کیا ہوگی۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ مسئلۂ ختمِ نبوّت کی ضرورت کیا تھی؟ تو اس کا ایک علمی جواب ہے، وہ یہ ہے کہ مخلوقات کی ہر صفت کو انتہا لازم ہے اور صفاتِ الٰہیہ غیر متناہی ہوتے ہیں، اس اصل کی بنا پر سلسلۂ نبوّت کا ختم عقلاً ضروری ہے ورنہ صفتِ مخلوق کا لامتناہی ہونا لازم آوے گا اور یہ محال ہے۔یوں تو ہر نبی کی نبوّت میں ایک ابتدا ہے پھر اس کی انتہا ہے، مگر ان حضرات انبیاء علیہم السلام کی نبوّت کی ابتدا اور انتہا امورِ اضافیہ سے ہے ابتدائے حقیقی اور انتہائے حقیقی اور چیز ہے جو صرف حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کے لیے خاص ہے۔ پس حق تعالیٰ شانہٗ نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کی بعثت کو کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ؎ فرماکر بتادیا کہ نبوّت اپنے انتہائی عروج کو پہنچ گئی ۔ اس سے پہلے ہر نبی الگ الگ قوم اور الگ الگ قریہ کے لیے مبعوث ہوتے تھے مگر آپ کی نبوّت کو تمام روئے زمین کے انسانوں کے لیے عام فرمایا، آپ کی امّت کو خیر الامم فرمایا، آپ کی امت کے علماء رتبے میں مثل انبیائے بنی اسرائیل ہیں۔ آپ کی شان رحمت للعالمین ہے اور عالَم کہتے ہیں جملہ ماسوااﷲ کو۔ عالم میں ماضی اور مستقبل اور حال سب داخل ہے۔ پس ہر نبی کی اپنے اپنے زمانے میں جو رحمت ہوئی وہ دراصل آپ ہی کی رحمت تھی۔ وجودِ عالم اپنے وجود میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کی رحمت کا ممنون ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے خمیر میں آپ ہی کا نور تھا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم ارشاد فرماتے ہیں: کُنْتُ نَبِیًّا وَّ اٰدَمُ بَیْنَ الْمَاءِ وَالطِّیْنِ ؎ میں نبی اس وقت بھی تھا جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کا پتلا مٹی اور پانی کے درمیان تھا۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ: ------------------------------