حیلے بہانے - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عبداللہ بن کِنانہ ایک راوی ہے۔ اس کے بارے میں محِشّی ابن ماجہ علامہ سندھی ؒ نے ’’زوائد‘‘ میں ابن ماجہ سے نقل کیا ہے: قَالَ الْبُخَارِيُّ:لَمْ یَصِحَّ حَدِیْثُہُ (یعنی امام بخاری ؒ نے فرمایا ہے کہ ان کی روایت کردہ حدیث صحیح نہیں ہے)۔ اور حافظ ابن جوزی ؒ نے عبداللہ بن کِنانہ کے والد کِنانہ کے بارے میں لکھا ہے کہ مُنْکَرُ الْحَدِیْثِ جِدًّا اور کنانہ کی وجہ سے انہوں نے حدیث کو موضوعات میں شمار کیا ہے، اگر موضوع نہیں تو ضعف سے پھر بھی خالی نہیں ہے۔ ایسی ضعیف حدیث کو بنیاد بنا کر لوگوں کے مال مارنا اور حقوق دبالینا اور حج کر کے اپنے آپ کو پاک وصاف سمجھ لینا بہت بڑی حماقت ہے اور فریب ِنفس ہے۔ اور کیا ذخیرۂ حدیث میں یہی ایک حدیث ہے جسے بعض محدثین نے ضعیف اور بعض نے موضوع کہا ہے، کثیر تعداد میں جو احادیث حقوق العباد کی تلافی کے بارے میں آئی ہیں ان کوکیوں بھلارہے ہیں؟ کسی کی غیبت کرنے ، کسی پر تہمت لگانے یا آبروریزی کرنے، یاقرضہ لے کر ادائیگی کاانتظام کیے بغیر مرجانے ،اور شریکوں کے آپس میں خیانت کرنے، اور کسی کی زمین دبالینے ۱؎ کے بارے میں جو صحیح السَّند احادیث میں وعیدیں آئی ہیں، ان کی طرف سے قصداً غافل ہوجانے سے کیا آخرت میں چھٹکارا ہوجائے گا؟۴۲۔ مرنے والے کی جائیداد سے اس کی بیوی کاحصہ نہ دینے کاغلط حیلہ : بہت سے دین داری کے مدعی مرنے والے بھائی کی جائیداد سے اس کی بیوی کاحصہ نہیں دیتے، بلکہ اس کو مجبور کرتے ہیں کہ تو ہمارے ساتھ نکاح کرلے ۔وہ بیچاری مجبوراً نکاح کرلیتی ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے شریعت کی پاسدار ی کرلی، حالاں کہ نکاح کرلینے سے اس کے شوہر کی میراث سے جوشرعاً حصہ اس کوملتا ہے اس کادبالینا پھر بھی حلال نہیں ہوتا۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر عورت کو جائیداد میں حصہ دے دیا گیا تو ہماری زمین کاحصہ دوسرے خاندان میں چلا جائے گا، اگر چلا ہی گیا تو کیا ہوا؟ بے چاری بیوہ عورت کامال مارنے اور آخرت کے عذاب سے توبچ جائیں گے۔۴۳۔ مرنے والے کے ترکہ میں سے لڑکیوں کو حصہ نہ دینا : بعض علاقوں میں رواج ہے کہ میت کے ترکہ میں سے اس کی لڑکیوں کو حصہ نہیں دیتے بلکہ میت کے لڑکے ہی سارامال دبالیتے ہیں، جوسراسر اپنی بہنوں پر ظلم کرتے ہیں اور حرام کھاتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنا حق مانگتی نہیں ہیں اور معاف کرانے سے معاف بھی کردیتی ہیں، لہٰذا یہ ہمارے لیے حلال ہے۔ واضح رہے کہ حق نہ مانگنا دلیل اس بات کی نہیں کہ انہوں نے دل سے اپنا حق چھوڑ دیا ،اور رواجی طور پر اوپر کے دل سے جومعافی ہوتی ہے اس کاشرعاً کوئی اعتبار نہیں۔ وہ بے چاری جانتی ہیں کہ ہمارا حصہ تو ہم کو ملنا ہے ہی نہیں، حق مانگ کر بھائیوں سے بگاڑ کیوں کریں۔ یہ سوچ کر وہ اپنا حق طلب کرنے سے خاموش رہتی ہیں، اور معافی مانگنے سے معافی کے الفاظ