حیلے بہانے - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دعاکریں اللہ ہمیں ہدایت دے : بہت سے لوگ جویہ کہہ دیتے ہیں کہ دعا کیجیے اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے، ان کو اللہ تعالیٰ نے توفیق تودے رکھی ہے لیکن اس کو اپنے اختیار سے کام میں نہیں لاتے اور دعا کرانے کے عنوان سے اپنی بے عملی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح یوں کہنا کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دے، یہ بھی نفس کا حیلہ ہے، اللہ جل شانہٗ نے اپنا رسول (ﷺ ) بھیج دیا، اپنی کتاب نازل فرمادی، فرائض وواجبات سمجھا دیے ، گناہوں کی فہرست بتادی، عقل دے دی، کیا یہ ہدایت نہیں ہے؟ رسول اللہﷺ اور کتاب اللہ کے بعد اور کون سی ہدایت کاانتظار ہے جس کے لیے دعا کرائی جارہی ہے؟ نفس کو عمل پر آمادہ کریں، نفس حیلے سمجھا کر بے عمل رہنا چاہتا ہے اس پر قابو کریں فَالْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ۔۹۔ آخر عمر میں توبہ کرنے کاایک حیلہ :بعض لوگ گناہ کرتے چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میاں! اخیر عمر میں توبہ کرلیں گے۔ یہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ گناہوں پر جرأت کرنا ہی ایمانی تقاضوں کے خلاف ہے پھر گناہوں پر اصرار کرنا اور برابر گناہ کرتے رہنا بہت بڑی سرکشی اور خداوندِ قدوس کی بغاوت ہے۔ وفادار بندہ کا تو یہ مقام ہے کہ کوئی چھوٹا ساگناہ بھی ہوجائے تو مارے ندامت کے پانی پانی ہوجاتا ہے کہ ہائے !مجھ ذلیل وحقیر سے خالقِ کائنات ربّ العزت جل مجدہ کی نافرمانی ہوگئی۔ گناہوں پر اصرار کرنا مؤمن کی شان سے بالکل جوڑ نہیں کھاتا، جب کوئی گناہ ہوجائے تو فوراً توبہ کرنا واجب ہے۔ یہ شیطان کا بہت بڑا دھوکہ ہے کہ بعد میں توبہ کرلیں گے، کیامعلوم ہے کہ توبہ کا موقع ملے یا نہ ملے۔ اچانک موتیں ہوتی رہتی ہیں اور بکثرت جوانی میں بھی لوگ مرتے ہیں، اگر بڑھاپانہ پایا ( جس کے انتظار میں توبہ کو موقوف رکھتے ہیں اور گناہ کرتے چلے جاتے ہیں) اور جوانی ہی میں موت ہوگئی، یابڑھاپا پالیا لیکن اچانک موت آگئی اور توبہ نہ کرسکے توکیا ہوگا؟ اس پر بھی توجہ کرنا چاہیے۔شیطان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ بغیر توبہ کے مرے : لیکن سب سے پرانا اور سب سے بڑا دشمن شیطان رجیم اس بات کو سوچنے ہی نہیں دیتا، اس کی خوشی تو اسی میں ہے کہ انسان گناہ گاری کی زندگی گزار تا رہے اور بغیر توبہ کے مرجائے تاکہ موت کے بعد عذاب میں گرفتار ہو۔ دشمن کے بہلاوے اور پھسلاوے کو خیر خواہی سمجھ کر خود اپنا براکرنا بڑی بدنصیبی ہے۔ اور یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ جب توبہ کریں گے وہ اس وقت قبول ہوگی جب کہ توبہ کی شرطیں پوری کرلی ہوں۔ دورِ حاضر کے لوگوں کی اول تو توبہ ہی سچی اور پکی نہیں ہوتی اور اس کی شرطیں پوری نہیں کرتے، پھر اگر سچی توبہ نصیب ہو بھی جائے تو اس کایہ مطلب نہیں کہ توبہ کے بھروسہ پر خوب زیادہ سے زیادہ گناہ کرتے رہیں۔