حیلے بہانے - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۵۸۔ کسی گناہ سے روکا جائے تو پوچھتے ہیں کہ یہ حرام ہے یاناجائز؟ کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جب ان کو کسی گناہ سے روکا جاتا ہے تو یوں پوچھتے ہیں کہ یہ حرام ہے یاناجائز ہے؟ جس کامطلب یہ ہوا کہ حرام ہے تو بچ جائیں گے کیوں کہ حرام کے ہتھوڑے کاڈر ہے، اور ناجائز ہے تو کرتے رہیں گے یعنی یہ جاہل ناجائز سے بچنے اور ڈرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اول توناجائز کامطلب سمجھنا چاہیے، جس چیز کے کرنے کی شرعاً اجازت نہ ہو اس کوناجائز کہاجاتا ہے۔ پس جس کام کی اجازت نہیں ہے اس کوکرنا اور دھڑلے سے کرنا اور ناجائز جانتے ہوئے کرنا ایمانی تقاضوں کے سراسر خلاف ہے اور بڑی سرکشی ہے۔ مؤمن بندہ کاکام یہ ہے کہ مکروہ تنزیہی سے بھی بچے، اور مکروہ تحریمی سے بھی دور بھاگے، ہر ناجائز سے سخت پرہیز کرے، اور حرام کے پاس نہ پھٹکے، یہ سمجھنا کہ حرام نہیں ہے لہذا کر گزرو بڑی نادانی کی بات ہے۔ یہ بات تو نہیں کہ صرف حرام پر پکڑہو ، پکڑ تو ہر چھوٹے بڑے گناہ پر ہوسکتی ہے۔ حضورِ اقدسﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ إِیَّاکِ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوْبِ فَإِنَّ لَھَا مِنَ اللّٰہِ طَالِباً۔ ۱؎ ان گناہوں سے (بھی) پرہیز کرو جن کو معمولی سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے بارے میں بھی مطالبہ کرنے والا (یعنی لکھنے والا فرشتہ) موجود ہے۔وفا دار بندوں کاطرزِ عمل : ایمان کاتقاضا یہ ہے جو بھی حکم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے ملے اس پر بڑی رغبت وبشاشت کے ساتھ عمل کرے ۔ وفادار بندہ یہ نہیں دیکھتا کہ عمل نہ کیا تو مار پڑے گی۔جو مار کے ڈر سے عمل کرتے ہیں ڈنڈے کے غلام ہیں۔ ایمانی وفاداری یہ ہے کہ ہر حکم پر بلاچون وچراعمل کیاجائے۔ خالقِ کائنات جل مجدہٗ نے جب وجود بخشا ہے، اَن گنت نعمتوں سے نوازا ہے، اس کی شکر گزاری کاتقاضا یہ ہے کہ جو حکم سنے مان لے اور عمل کرے۔مکروہ ومستحب کے معنی بدل لیے گئے ہیں : آج کل لوگوں کا مزاج یہ ہوگیا ہے کہ مکروہ سے تو بچتے ہی نہیں اگرچہ تحریمی ہو، جب کسی عمل کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکروہ ہے، اس کامطلب یہ لیتے ہیں کہ اس کو کرنا چاہیے، اور کسی بات کے بارے میں اگر معلوم ہو کہ یہ مستحب ہے تو اس کامعنیٰ ان کے نزدیک یہ ہوتا ہے کہ اس کو نہ کرو، مفہوم ہی الٹ چکا ہے۔ ثواب کی رغبت نہیں، گناہ سے وحشت ونفرت نہیں، گناہ ، گناہ ہی ہے جتنا بھی ہلکا ہو۔ جب نفس کو مکروہ کام سے بچانے کااہتمام کریں گے تو وہ حرام سے بھی بچے گا، سنتوں او ر مستحبات کی پابندی کرائیں گے تو فرائض وواجبات کی پابندی کے لیے بھی راضی ہوگا۔ نفس کو جہاں ڈھیلا چھوڑا فوراً عمل میں آگے بڑھنے سے بچے گا۔ کبھی ایسی بات نہ سوچیں