حیلے بہانے - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
آخرت میں بلند درجات دلانے والے اعمال سے مالامال ہوں، اپنے دین پر جمتے ہوئے حلال طریقوں سے مال نصیب ہوجائے تو وہ بھی اللہ کی نعمت ہے، لیکن اصل ایمان ہے اور اعمال ِصالحہ ہیں، اس کی بقا کا فکر مند ہونا لازم ہے۔ مسلمان کوئی ذات برادری والی نسلی قوم نہیں ہے، ہر شخص اپنے اپنے عقیدہ اور عمل سے مسلمان ہوتا ہے۔۳۲۔ خدمتِ خلق میں مشغول ہو کر نمازیں ضائع کرنے والے : کچھ لوگوں کو قوم کی ہمدردی کاایسا جوش سوار ہے کہ قوم کی خدمت ہی کو انہوں نے سب کچھ سمجھ رکھا ہے۔ خدمت ہی میں لگے رہتے ہیں، اور اس خدمت کے ذیل میں بہت سے کبیرہ گناہ بھی کرجاتے ہیں حتیٰ کہ فرض نماز تک چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر کوئی نماز اور دیگر فرائض کی طرف توجہ دلائے تو کہتے ہیں کہ صاحب! ہم نے نماز نہ پڑھی تو کیا ہوا؟ ہم خدمتِ خلق میں لگے ہوئے ہیں، یہ بھی تو ثواب کاکام ہے۔ اپنے آپ کو گناہوں میں مبتلا رکھنا اور دوسروں کی خدمت کرنا (علاج ومعالجہ کردینا یا دوامفت دے دینا وغیر وغیرہ) اور یہ سمجھ لینا کہ ہمیں گناہوں سے بچنے اور فرائض کااہتمام کرنے کی ضرورت نہیں ہے بہت بڑی گمراہی ہے۔ شریعت میں اعمال کی ترتیب ہے، کچھ فرائض ہیں، کچھ واجبات ہیں، کچھ سنتیں ہیں۔ خدمتِ خلق بھی ثواب کاکام ہے بشرطیکہ شریعت کے مطابق ہو، اس میں گناہ نہ ہوتے ہوں، اور فرائض وواجبات کی ادائیگی میں رکاوٹ نہ ہوتی ہو۔ نماز دین کا ستون ہے، ایمان کے بعد اسی کامرتبہ ہے اگر نماز نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ دینِ اسلام میں نماز کامرتبہ ایسا ہے جیسا پورے جسم میں سرکادرجہ ہے ۱؎ (اگر سرکٹ جائے تو آدمی زندہ نہیں رہ سکتا، اسی طرح تارکِ نماز کادین باقی نہیں رہ سکتا)۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے: لاَتَتْرُکَنَّ صَلٰوۃً مَّکْتُوْبَۃً مُّتَعَمِّدًا فَإِنَّ مَنْ تَرَکَ صَلٰوۃً مَّکْتُوْبَۃً مُّتَعَمِّدًا فَقَدْ بَرِأَتْ مِنْہُ ذِمَّۃُ اللّٰہِ۔۲؎ یعنی فرض نماز ہر گز قصداً نہ چھوڑ، کیوں کہ جس نے فرض نماز قصداً چھوڑ دی اس سے اللہ تعالیٰ کاذمہ بری ہوگیا۔ یعنی اب اللہ کی کوئی ذمہ داری نہیں رہی کہ اس کو امن وامان اور عزت سے رکھے، اور مصائب دنیا اور عذابِ آخرت سے اس کو بچائے۔ ایک نماز کاکتنا بڑا مرتبہ ہے اس کے سمجھنے کے لیے حضورِ اقدسﷺ کے اس ارشاد پر غور کریں: اَلَّذِيْ تَفُوْتُہٗ صَلٰوۃُ الْعَصْرِ فَکَأَنَّمَا وُتِرَ أَھْلُہٗ وَمَالُہٗ۔۱؎ یعنی جس کی نماز عصر جاتی رہی اس کااسی قدر نقصان ہواکہ جیسے اس کے اہل واولاد اور سارا مال ختم ہوگیا۔ جو حضرات اس دھوکہ میں ہیں کہ ہم خدمتِ خلق کرتے ہیں، دوامفت دیتے ہیں، گشتی شفاخانے قائم کررکھے ہیں، ہم نے یہ نیک کام کرلیے اور نمازیوں نے نماز پڑھ لی، لہٰذا ہم اور وہ برابر ہوگئے۔ وہ حضورِ اقدس ﷺ کے ارشادِ ذیل کو غور