حیلے بہانے - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بارے میں سوال ہوگا، اور مرد اپنے گھر والوں کانگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا، اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی نگران ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال کیا جائے گا، اور غلام اپنے آقا کے مال کانگران ہے اور اس کے بارے میں اس سے سوال ہوگا۔(پھر آخر میں فرمایا:) تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور تم میں ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ اردو میں رعیّت ان لوگوں کو کہتے ہیں جوکسی کی عملد اری میں بستے ہوں ،لیکن عربی میں رعیّت کامفہوم بہت عام ہے جس کسی کو کسی کے جان ومال کی حفاظت سپرد کردی جائے تو اس کا راعی یعنی نگران ونگہبان ہے، اور جوکچھ اس کی نگہبانی اور نگرانی میں دے دیا گیا وہ اس کی رعیّت ہے۔ پورے ملک کے عوا م ہوں یاایک گھر کے رہنے والے اپنے آل واولاد، بیوی بچے یہ سب رعیّت ہیں اور ان کی نگرانی لازم ہے، اپنی قوت وطاقت سے ان کو دین پر لگانے اور ان سے فرائض وواجبات ادا کروانے اور ان کوگناہوں سے بچانے اور ان کو دین سکھانے پر خرچ کرنا لازم ہے۔اہل وعیال کو دین پرچلانے کی ذمہ داری : یہ بہت ضروری امر ہے کہ جب بھی آدمی بیوی والا بنے ، اپنی بیوی کو دین پر چلانے کے لیے فکر مند ہو ، پھر جب صاحب ِاولاد ہو تو ان کو بھی دینی زندگی پر ڈالے اور دینی اَحکام پر چلائے ۔ صرف کھلانا پلانا او ر اچھے کپڑے پہنانا ہی بچوں کی محبت نہیں ہے، اس سے بڑھ کر ان کی محبت یہ ہے کہ ان کو دین پر ڈالیں، آخرت کافکر مند بنائیں، فرائض وواجبات سکھائیں، اَحکامِ شریعت بتائیں اور گناہوں سے بچائیں۔ جن باتوں سے بیوی بچوں کی آخرت سنورتی ہو، جنت ملتی ہو اور دوزخ سے حفاظت ہوتی ہو درحقیقت انہیں میں ان کافائدہ ہے۔ شروع سے ایسی ترتیب بنانا لازم ہے کہ بیوی بچے کنٹرول میں رہیں اور دین پر رضا اور رغبت سے چلیں، نرمی سے ، گرمی سے، پیارو محبت سے جس طرح بن پڑے ان کو دین پرچلائیں۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے: وَأَنْفِقْ عَلٰی عَیَالِکَ مِنْ طَوْلِکَ، وَلَا تَرْفَعْ عَنْھُمْ عَصَاکَ أَدَباً، وَأَخِفْھُمْ فِي اللّٰہِ۔۱؎ اور اپنے اہل وعیال پر اپنا مال خرچ کر اور ادب سکھانے کی وجہ سے اپنی لاٹھی ان سے اٹھا کر مت رکھ، اور ان کو اللہ (کے اَحکام) کے بارے میں ڈراتارہ۔ دیکھو !جہاں یہ نصیحت فرمائی کہ اہل وعیال پر اپنا مال خرچ کرو وہاں یہ بھی فرمایا کہ ان کی طرف سے غافل ہو کر لاٹھی اٹھا کرمت رکھ، جس کا یہ مطلب ہے کہ ان کی تعلیم وتادیب میں کوتاہی نہ کرو اور ان کو نہ یہ سمجھنے دو کہ والد کو ہماری دین داری کافکر نہیں ہے۔ ان کو دین پر ڈالنے کے لیے سختی کرو، ان کے اعمال واحوال کی نگرانی کرتے رہو، ڈانٹ اور مارپیٹ سے بھی بوقت ضرورت دریغ نہ کرو وہ ڈھیلاپن محسوس نہ کریں، ان کے ساتھ ایسا معاملہ رکھو کہ وہ یہ سمجھنے پر مجبور رہیں کہ اگر ہم نے دینی کاموں میں کوتاہی کی تو مار پڑے گی۔