حیلے بہانے - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے چھپر میں رہے گا، اتنے سے اخراجات کے لیے حلال مال مل سکتا ہے لیکن آخرت کی فکر اور اس کاخوف ہونا لازم ہے۔ بہت سے اللہ کے بندے ایسے ہیں جو رئیس کبیر ہیں ان کامال حلال ہے، کمانے میں حلال کاخیال رکھتے ہیں ،اللہ پاک ان کو اسی میں ترقی دیتا ہے۔ ضروری نہیں کہ مال زیادہ ہو تو حرام ہی ہو اور کم ہو تو حلال ہی ہو۔ شریعت میں حلال و حرام کے اصول اور قواعد مقرر ہیں ان کے مطابق حلال کو حلال اور حرام کو حرام ماننا لازم ہے۔ بہت سے لوگ کم کماتے ہیں مگر ان کامال حرام ہوتاہے، بے ایمانی ، چوری وخیانت، سود، رشوت سے حاصل کیا ہو امال حرام ہے چاہے تھوڑا ساہو خواہ ایک پیسہ ہی ہو، اور شریعت کے مطابق حلال طریقوں سے حاصل کیا ہوا مال حلال ہے چاہے کروڑوں کی مالیت ہو۔ بس کمانے میں اصولِ شریعت کو دیکھنا لازم ہے۔ یہ فیصلہ کرلینا کہ حلال ملتا ہی نہیں غلط ہے، اور یہ جھوٹا بہانہ حرام خوری کے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ لَحْمٌ نَبَتَ مِنَ السُّحْتِ کَانَتِ النَّارُ أَوْلٰی بِہٖ۔ ۱؎ جوگوشت حرام سے پلا بڑھا ہو وہ جنت میں نہ جائے گا۔ اور جو گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو دوزخ اس کی زیادہ مستحق ہے۔ اسلام کے دامن سے وابستہ ہونے والو! نفس کو حرام سے بچائو، اور زبردستی اس کو اس پر آمادہ کرو کہ حلال کھائے، اور حلال سے ضرورتیں پوری کرو۔۱۲۔ گناہوں کی ذمہ داری عورتوں وبچوں پر ڈالنا : بہت سے لوگ ایسے بھی دیکھے گئے ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ شادی، غمی ، یادیگر مواقع میں شریعت کی پاس داری کرو اور فلاں فلاں گناہ سے باز آئو تو کہہ دیتے ہیں کہ عورتیں نہیں مانتی ہیں۔ اور بعض لوگ اپنے گھرمیں گناہ اور گناہ کی چیزیں دیکھتے ہیں اور توجہ دلانے پر کہہ دیتے ہیں کہ لڑکے اور بچے نہیں مانتے، اور اپنے کو اس طرح گناہ سے بری سمجھ لیتے ہیں۔ ان کے گھر میں گناہ ہورہا ہے، بدعتوں پر عمل ہے، شادی میں ڈھول باجے بج رہے ہیں، بے پردگی ہورہی ہے اور صاحب ِخانہ اپنے کو ان سب گناہوں سے بری ہی سمجھے ہوئے ہیں، اور حیلہ یہ تراش رکھا ہے کہ عورتیں اور بچے نہیں مانتے، حالاں کہ پورے گھر کو دین پر چلانے کی ذمہ داری گھر کے بڑے پر ہے۔ حدیث شریف میں ارشاد ہے: أَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ، فاَلْإِمَامُ الَّذِيْ عَلَی النَّاسِ رَاعٍ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی أَھْلِ بَیْتِہٖ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ، وَالْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ عَلٰی بَیْتِ زَوْجِھَا وَوَلَدِہٖ وَھِيَ مَسْئُوْلَۃٌ عَنْھُمْ، وَعَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلٰی مَالِ سَیِّدِہٖ وَھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْہُ۔ أَلاَ فَکُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ۔۱؎ خبر دار! تم میں سے ہر شخص (اپنے ماتحتوں کا) نگران ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیّت (یعنی جو اس کے ماتحت نگرانی میں ہیں) ان کے بارے میں سوال کیاجائے گا۔ پس امام (یعنی امیر المؤ منین سب سے بڑا صاحب ِاقتدار) نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے