حیلے بہانے - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہے جو روزانہ پیش آتے ہیں۔ جو لوگ حنفی مذہب کے پابند ہیں وہ اگر حنفی مسلک کے کسی عالم ومفتی سے مسئلہ پوچھیں گے اور وہ واقعی عالم ہے اور فقہ حنفی پر عبور رکھتا ہے تو وہ فقہ حنفی ہی کے مطابق بتائے گا ،اور اس کے علاوہ دوسرا کوئی عالم جو فقہ حنفی کاماہر ہو وہ بھی وہی بتائے گا جو پہلے شخص نے بتایا ہے۔ لوگوں کاحال یہ ہے کہ ان لوگوں سے مسائل پوچھ لیتے ہیں جنہیں مسائل کاعلم نہیں، اور انہوں نے جومسئلہ غیر ذمہ دارانہ طور پر غلط بتایا اسے عُلَما کااختلاف بنا کر اُچھالتے ہیں اور خود کوعمل سے بری کرلیتے ہیں۔ڈاکٹروں یاوکیلوں میں اختلاف ہوتو وہ عمل سے نہیں روکتا : پھر یہ اختلاف کابہانہ دین ہی میں تلاش کرتے ہیں، دنیاوی کاموں میں اختلاف عمل سے نہیں روکتا۔ کتنے مریض ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں ان کے مرض کی تشخیص میں ڈاکٹروں کااختلاف ہوتا ہے، اور کسی مرض کے بارے میں حکیم کچھ بتاتے ہیں اور ڈاکٹر اس کے بارے میں دوسری رائے دیتے ہیں، لیکن اس اختلاف کی وجہ سے کوئی علاج کرنا نہیں چھوڑتا۔ اگر کوئی مقدمہ لڑنا ہو اور اس کے لیے وکیل کی ضرورت ہو تو چند وکیلوں سے ملتے ہیں ان کی مختلف رائیں سامنے آتی ہیں، اس کے باوجود مقدمہ لڑتے ہیں ،کوئی مدعی اپنا مقدمہ اس وجہ سے واپس نہیں لیتا کہ وکیلوں میں اختلاف ہے بلکہ خوب وکیلوں کے دروازوں کی خاک چھانتے ہیں اور لوگوں سے مشورے کرتے ہیں کہ کس کو وکیل بنائوں ، پھر جب تحقیق وتلاش ومشورہ کے بعد کسی پر دل ٹھک جاتا ہے تو اسی کو اپنا وکیل بنالیتے ہیں۔ وکیلوں کایہ حال ہے کہ ہر ایک کامقدمہ لینے کو تیار ہیں، حق اور ناحق سے انہیں کوئی مطلب نہیں، انہیں تو فیس چاہیے، ہر سچے جھوٹے کومشورہ دینے کو تیار ہیں پھر بھی انہیں کووکیل بنایا جاتا ہے۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ وکیل کو فیس دے کر مقدمہ ہار جاتے ہیں پھر بھی اس کوکوئی الزام نہیں دیتے، فیس بھی دی مقدمہ بھی ہارے پھر بھی وکیل صاحب معزز ہی رہے۔ ہر وکیل سینکڑوں مقدمات ہراتا ہے پھر بھی اس کی حیثیت میں کوئی فرق نہیں آتا، سینکڑوں آدمی ان کے دفتروں میں بھیڑ لگائے رہتے ہیں ۔یہ ہی حال ڈاکٹروں اور حکیموںکا ہے کہ ان میں اختلاف بھی ہوتا ہے اور ان کے علاج سے لوگ مر بھی جاتے ہیں ان کی حکیمی، ڈاکٹری میں کوئی فرق نہیں آتا ہے لوگ برابر ان سے علاج کرواتے ہیں۔ آخر اختلاف کو دینی کاموں کے لیے کیوں بہا نہ بنایا جاتا ہے؟ با ت اصل یہ ہے کہ دین پر عمل کرنا نہیں چاہتے اور اس کو ضروری نہیں سمجھتے۔ اگر دین کو بھی ضرورت کی چیز سمجھتے تو مسائل معلوم کرنے کے لیے متعدد عُلَمَا کے پاس جاتے ،ان کو پرکھتے اور ایسا شخص تلاش کرتے جس کے علم پر اعتماد ہوجائے۔ نزلہ عُضوِ ضعیف پر ہی گرتا ہے کیوں کہ دین موجودہ معاشرہ میں ضعیف ہے اس لیے ہر نقصان اور خسران اور بے عملی دین ہی میں برداشت کرلیتے ہیں اور لفّاظی اور چرب