حیلے بہانے - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اسی میں خیر ہے کہ دوزخ کے کاموں سے بچیں اور جنت کے کاموں میں لگیں۔ اعترا ض بازی اور زبان درازی میدانِ آخرت میں کام نہ دے گی، وہاں کے لیے تومؤمن صالح ہوکر جانا ضروری ہے۔۷۔اس اعتراض کاجواب کہ شیطان کو پیچھے کیوں لگایا ؟: کچھ لوگ خدائے پاک پر بھی یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے شیطان کوپیچھے کیوں لگادیا؟ اور سمجھتے ہیں کہ یہ اعتراض بہت بڑاحیلہ ہے جس کے ذریعہ دوزخ سے بچ جائیں گے۔ یہ بھی جاہلانہ اعتراض ہے۔ خدائے پاک نے انسان کو پیدا فرمایا اور اسے آزمائش میں بھی مبتلافرمایا جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے: {تَبَارَکَ الَّذِيْ بِیَدِہِ الْمُلْکُز وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِیْرُنِo الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَ یُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً}۲؎ بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضے میں تمام سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پرقادر ہے ، جس نے موت اور حیات کو پیداکیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون شخص عمل میں زیادہ اچھا ہے۔ پیدا فرمانا اور آزمایش میں ڈالنا یہ سب اس کے حکمت کے موافق ہے، اسی آزمایش میں سے یہ بھی ہے کہ شیطان اور اس کی ذرّیت سب انسان کی دشمنی میں لگے ہوئے ہیں، ان کی کوشش ہے کہ جیسے ہم کو دوزخ میں جانا ہے ایسے ہی سارے انسان بھی ہمارے ساتھ دوزخ میں جائیں۔ اگر شیطان پیچھے لگایا ہے تو انسان کو اس کے دفع کرنے کے لیے قوتِ ارادی بھی تو عطا فرمائی ہے۔ شیطان کو دفع کرو، اس کے بہکائوں اور وسوسوں کو پائوں کے نیچے روند تے ہوئے آگے بڑھ جائو۔ آزمایشوں میں کامیاب ہونے پر اور شیطان کو ذلیل کر کے گناہ چھوڑنے اور نیکیاں اختیار کرنے پر ثواب بھی تو بہت بڑا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی ہمت وارادہ پر قابو پانے کا ارادہ کرے توشیطان کی حیثیت اس کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: {اِنَّ کَیْدَ الشَّیْطٰنِ کَانَ ضَعِیْفًا}۱؎ بلاشبہ شیطان کی تدبیر کمزور ہوتی ہے۔ جومؤمن بندے شیطان سے بچنا چاہتے ہیں وہ بچ کر رہتے ہیں اور شیطان کی تدبیروں کو ملیا میٹ کردیتے ہیں۔ اعمال میں کچّا خود بنے، ہمّت خود ہارے اور شیطان کے بہکانے کابہانہ کرے، یہ کوئی سمجھ داری نہیں ہے۔شیطان کاقابو کن لوگوں پرچلتا ہے ؟:سورۂ نحل میں ارشاد ہے: {اِنَّہُ لَیْْسَ لَہُ سُلْطٰنٌ عَلَی الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَo اِنَّمَا سُلْطٰنُہُ عَلَی الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَہُ وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِہِ مُشْرِکُوْنَ}۲؎ یقینا اس کاقابو ان لوگوں پر نہیں چلتا جو ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ربّ پر بھروسہ کرتے ہیں، اس کاقابو صرف ان ہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس سے دوستی کا تعلق رکھتے ہیں اور ان لوگوں پر جوکہ اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔