حیلے بہانے - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عقل کاتقاضا تو یہ ہے کہ بدعتوں کو چھوڑیں اور سنتوں کو اختیار کریں، جن کاسنت ہونا صحیح السّند روایات سے ثابت ہے اور جن کے سنت ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔ ایسے کام جو اپنے خیال میں بدعت ِحسنہ ہو اور علمائے حق کی تحقیق میں بدعت ِسیئہ ہو، آخرت کے مواخذہ اور محاسبہ سے ڈرنے والا تو ایسے کام کبھی نہیں کرے گا جس میں ذرابھی گناہ کاشائبہ وشبہ ہو۔ اگر انسانوں کے کہہ دینے سے دین بن جایا کرے اور خود ساختہ اعمال پر ثواب ملا کرے تو قرآن وحدیث پڑھنے پڑھانے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ اگر اس کی اجازت دے دی جائے کہ جس کا جو جی چاہے طریقہ اختیار کرلے اور اسے بدعت ِحسنہ کانام دے کر عمل کرتا رہے تو دین اپنی اصلی حالت پر باقی نہیں رہ سکتا۔ دین کی حفاظت انہیں حضرات نے کی ہے جو سنت وبدعت کافرق سمجھتے اور سمجھاتے رہے ہیں۔ سمجھ داری کی بات تو یہ ہے کہ جس چیز کو ثواب سمجھ کر کر رہے ہیں، اور اس کے نیکی ہونے کی صاف تصریح قرآن وحدیث میں نہیں ہے اور خود بھی اس کے بدعت ہونے کے اقراری ہیں ( گوبدعت ِحسنہ کے ہی نام سے اقرار کر رہے ہوں) او رعلمائے محققین اسے بدعت سیئہ بتارہے ہیں تو اسے چھوڑ دیں۔ آخرت میں ایسے اعمال لے کر پہنچنا عقل مندی اور سمجھ داری ہے جن پر بے کھٹکے ثواب ملنے کی امید ہو ،اور جن اعمال پر کسی درجہ میں بھی گرفت کااندیشہ ہو ان سے پرہیز لازم ہے ۔۲۴۔ مَا رَاٰہُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَسَنًا کس کا قول ہے؟اور اس کامطلب کیا ہے؟ بہت سے لوگ اپنی بدعتوں کو نیکی بنانے کے لیے یہ عبارت پیش کرتے ہیں کہ مَا رَاٰہُ الْمُوْمِنُوْنَ حَسَنًا فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَنٌ ۔ اور کہتے ہیں کہ چوں کہ ہم مومن ہیں اور ہم نے یہ طریقہ نکالا ہے جسے ہم اچھا سمجھتے ہیں، لہٰذا اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے۔ جو حضرات اس عبارت سے اپنی بدعتوں کے بدعت ِحسنہ ہونے پر استدلال کرتے ہیں،ان لوگوں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ یہ کس کاقول ہے؟ پس جاننا چاہیے کہ یہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کاارشاد ہے۔ بعض حضرات نے اس کو حدیثِ مرفوع یعنی ارشادِ نبوی ﷺ بھی بتایا ہے، لیکن اس کی سندمیں سلیمان بن عمرو النخعی ایک راوی ہے جس کے بارے میں محدثین نے فرمایا ہے کہ وہ حدیثیں وضع کیا کرتا تھا یعنی اپنے پاس سے بنالیتا تھا، لہٰذا حدیث مرفوع تو نہ ہوئی۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے جو فرمایا ہے اس کے بارے میں سمجھ لیں کہ ان کاکلام اتنا ہی نہیں ہے، اس سے پہلے انہوں نے حضراتِ صحابہؓ کی تعریف فرمائی ہے پھر یہ کلمات ارشاد فرمائے ۔ ان کاپورا ارشاد اس طرح سے ہے: إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ نَظَرَ فِيْ قُلُوْبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍﷺ ، فَوَجَدَ قُلُوْبَ أَصْحَابِہٖ خَیْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ، جَعَلَھُمْ وُزَرَائَ نَبِیِّہٖ، یُقَاتِلُوْنَ