حیلے بہانے - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کہے گا۔ کیا اس حیلہ سے ہمیں گناہ کرنا جائز ہوجائے گا کہ مبلغ نے ہمیں تبلیغ کی اور فلاں کو نہ کی، ہر شخص کو اپنی خیر وخوبی اور خرابی پر غور کرنا چاہیے۔ وہ بھی تو فلاں گناہ میں مبتلا ہے، یہ کہا اور اپنے نفس کومطمئن کردیا کہ تجھے گناہ چھوڑنے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ جس نے تبلیغ کی تھی اس کامنہ بند کردیا۔ کیا اس سے آخرت کے مؤاخذہ سے بچ جائیں گے؟ دوسر ااگر گناہ کرتا ہو تو اس کی وجہ سے خود گناہ کرنا جائز نہیں ہوجاتا، حیلہ نمبر۲ کے ذیل میں ہم اس پر کلام کرچکے ہیں۔ دوسرا اگر چہ گناہ گار ہو لیکن جب ہمیں کلمۂ خیر کہہ رہا ہے اور برائی سے روک رہا ہے اور ہمارا ایمانی تقاضا یاد دلارہا ہے تو ہمیں گناہ سے بچ جانا لازم ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ بھی بے عمل ہے سو یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ عامل بھی ہو اور مبلغ بھی ہو، لیکن مبلغ کے گناہ گار ہونے سے ہمارے لیے جائز نہیں ہوجاتا کہ ہم بھی گناہ پر جمے رہیں،یہ تو بہت موٹی سی بات ہے۔۵۷۔ ہم سینکڑوں گناہ کرتے ہیں ایک گناہ چھوڑ دیا تو کیا ہوگا؟ بعض لوگوں کو جب کسی گناہ کے چھوڑنے پر تنبیہ کی جاتی ہے تو کہہ دیتے ہیں : ارے میاں!رات دن ہم سینکڑوں گناہ کرتے ہیں، اس ایک گناہ کے چھوڑنے سے کیا ہوگا؟یہ شیطان کابہت بڑا دھوکہ ہے اور نفس کافریب ہے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلمان بندہ اللہ تعالیٰ کی وفا داری کاعہد کرچکا ہے،جتنے گناہ زیادہ ہوں گے اتنی ہی بغاوت اور نافرمانی زیادہ ہوگی، اور جتنے بھی گناہ کم ہوں گے اسی قدر بغاوت ونافرمانی کم ہوگی۔ اگر ایک گناہ بھی چھوڑ دیا تو بغاوت میں کمی آگئی، اور بقدر اس ایک گناہ کے عذاب سے بھی محفوظ ہوگیا(کیوں کہ اگر یہ گناہ آگے ہوتا تو جتنی دفعہ بھی اس کوکرتا اس کے بقدر عذاب کامستحق ہوتا) ۔ دنیاوی مصیبتوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کوشش کرتا ہے جتنی بھی مصیبت اور تکلیف کم ہو اچھا ہے، اگر ایک سو تین ڈگری بخار ہو اور ایک ڈگری بھی کم ہوجائے تو خوش ہوتے ہیں، اگر چند امراض لاحق ہوںاور ایک مرض کی شدت میں بھی کچھ کمی ہوجائے تو اس کو بھی غنیمت جانتے ہیں۔ یہ معلوم ہے کہ آخرت میں گناہوں پر عذاب ہے، اور وہاں کے عذاب کی کسی کو سہار نہیں ہے لہٰذا عذاب کے اسباب میں جتنی بھی کمی ہو بہتر ہے۔ اگر میدانِ قیامت اور دوزخ کاتصور کریں گے تو بہت جلدی یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ ہزاروں گناہوں میں سے ایک کم ہوجائے وہ بھی بسا(بہت) غنیمت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سب گناہوں سے توبہ کرنا فرض ہے، اور توبہ میں دیر لگاناجائز نہیں ہے۔ پس اگر پورے گناہوں کو بیک وقت نہیں چھوڑتے ، کچھ تو چھوڑو۔ گناہ چھوڑنے کی نفس کو عادت ڈالو گے اور ایک ایک کر کے چھوڑتے چلے جائو گے ان شاء اللہ کبھی سارے گناہوں سے پکی توبہ بھی نصیب ہوجائے گی۔