حیلے بہانے - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہیں یاکم از کم اس کے بدعت کہنے سے خاموش رہتے ہیں۔ جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ تم نے فلاں بدعت کو کیوں روارکھا اور اس میں کیوں شرکت کی، اور مداہنت سے کیوں کام لیا؟ تو جواب دیتے ہیں کہ ان لوگوں کو آہستہ آہستہ راستہ پر لارہا ہوں، جب یہ مجھ سے مانوس ہوجائیں گے تو ان کو حقیقت سمجھادوں گا اور بدعت سے روک دوں گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ دوسروں کو راہ پر لانے کے لیے خود گناہ کرنا اور بدعت کے کاموں میں شریک ہونا ہر گز جائز نہیں ہے، اپنے دین پر باقی رہتے ہوئے، گناہوں سے بچتے ہوئے اور بدعتوں سے دور رہتے ہوئے دوسروں کی اصلاح کی جائے ،نہ یہ کہ عوام کے ساتھ خود بدعت کی رو میں بہہ جائے ۔گناہوں اور بدعتوں کو دیکھتا رہے اور قدرت ہوتے ہوئے روک ٹوک نہ کرے، یہ ایمانی تقاضوں کے سراسر خلاف ہے۔دوسروں کو راہ پر لانے کے لیے خود گناہ میں ملوث ہوجانا یہ کوئی دین داری ، سمجھ داری نہیں ہے، شریعت نے اس کی اجازت نہیں دی۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ جب ایک عرصہ تک خود بدعتوں میں شریک ہوتے رہیں گے یانظروں کے سامنے بدعتیں دیکھتے ہوئے خاموش رہیں گے تو پھر اصلاح کرنے کا کوئی راستہ نہ رہے گا۔ بدعتی لوگ ہر گز نہ مانیں گے اور الٹا الزام دیں گے کہ یہ چیز آج بدعت ہوگئی؟ پہلے جب آپ شریک ہوتے رہے یاخاموش رہے جب بدعت نہ تھی؟اور پھر اس کی کیا ضمانت ہے کہ آپ اس وقت ان لوگوں میں موجود رہیں گے جب آپ اپنے کو حق کہنے کے قابل سمجھیں گے۔ درحقیت یہ حیلہ وہ لوگ اختیار کرتے ہیں جو اہل ِبدعت میں امامت یامدرسی وغیرہ اختیار کرلیتے ہیں، مقصود نوکری ہوتی ہے اور بدعت کو اپنی نوکری باقی رکھنے کے لیے برداشت کرلیتے ہیں، اور دوسروں کو یوں سمجھادیتے ہیں کہ ہم جب ان کو مانوس کرلیں گے تو راہ پر لے آئیں گے اندر سے دوسرا جذبہ ہوتا ہے اور ظاہری طور پر ان کی اصلاح کاحیلہ سامنے لے آتے ہیں۔ ہرشخص اپنا دل ٹٹولے اور خود اپنا محاسبہ کرے۔۲۸۔ اصلاح کابہانہ کرکے حرام آمدنی والوں کی دعوتیں کھانا :بعض لوگ ایسے بھی دیکھے گئے ہیں جو لوگوں کے پاس اصلاح کرنے کے عنوان سے آتے جاتے ہیں اور بے تکلّف حرام آمدنی والوں کی دعوتیں اڑالیتے ہیں، اور جب ان سے اس بارے میں گفتگو کی جاتی ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ اگر ان لوگوں کی دعوت نہ کھائیں تو یہ ہم سے دور اور متنفر ہوں گے پھر ان کی اصلاح کی کوئی صورت نہ رہے گی، اصلاح کے لیے خلا ملا کی ضرورت ہے۔ یہ عذر لنگ اور غلط حیلہ ہے۔ دوسروں کوراہ پر لانے کے لیے حرام کھانا جائز نہیں ہوجاتا۔ اپنے نفس کو حرام سے بچاتے ہوئے دوسروں کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں، حرام کھانے کابہت بڑاوبال ہے۔ حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے: کُلُّ لَحْمٍ نَبَتَ مِنَ السُّحْتِ کَانَتِ النَّارُ أَوْلٰی بِہٖ۔۱؎