حیلے بہانے - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عَلٰی دِیْنِہٖ، فَمَا رَاٰہُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَسَناً فَھُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَنٌ، وَمَا رَاٰہُ سَیِّئاً فَھُوَ عِنْدَ اللّٰہِ سَيِّئٌ۔۱؎ بے شک اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہﷺ کے قلب کے بعد دوسرے بندوں کے قلوب کو دیکھا، پس بندوں کے قلوب میں سے آپ کے صحابہؓ کے قلوب کوسب سے بہتر پایا، پس ان کو اپنے نبی کے وزیر بنادیے ۔ وہ آپ کی دین کی حفاظت کے لیے جہاد کرتے ہیں، پس جسے مسلمین نے اچھا سمجھا وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھا ہے اور جسے مسلمین نے برا سمجھا وہ اللہ کے نزدیک بُرا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کاپورا ارشاد سامنے آنے سے پتہ چلا کہ ان کے ارشاد میں مسلمین سے مراد حضرات ِصحابۂ کرام ؓ ہیں۔ ہر کہ ومِہ( ہر چھوٹا اور بڑا)بے علم اور بے عمل مدعی ٔاسلام کو یہ درجہ دینا کہ وہ جو عمل چاہے ایجاد کرلے اور اس کاوہ عمل دین ِخداوندی میں داخل ہوجائے، یہ بات حضرت عبداللہ بن مسعود کے ذہن میں کہیں سے کہیں تک بھی نہ تھی۔ فَمَا رَاٰہُ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًاپر جو’’فا‘‘ کلمہ داخل ہے وہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ کلام پہلے کلام سے مرتبط ہے، اور بطور عہد ِ خارجی اس سے حضرات ِصحابۂ کرام مراد ہیں، بڑی لمبی تفسیر وتوضیح کے بعد جس کاکچھ حصہ ہم نے اوپر نقل کیا ہے۔ شارِح موطأ کاارشاد : حضرت مولانا عبدالحی صاحب لکھنوی ؒ ’’التعلیق الممجّد علی موطأ إمام محمد‘‘میں تحریر فرماتے ہیں: فَإِذًا لَّا یَدُلُّ الْحَدِیْثُ إِلاَّ عَلٰی حُسْنِ مَا اسْتَحْسَنَہُ الصَّحَابَۃُ، أَوْ مَا اسْتَحْسَنَہُ الْکَامِلُوْنَ مِنَ الْاِجْتِھَادِ، لاَ عَلٰی حُسْنِ مَا اسْتَحْسَنَہٗ غَیْرُھُمْ مِنَ الْعُلَمَائِ الَّذِیْنَ حَدَثُوْا بَعْدَ الْقُرُوْنِ الثَّلاَثَۃِ وَلاَ حَظَّ لَھُمْ مِنَ الْاِجْتِھَادِ مَا لَمْ یَدْخُلْ ذٰلِکَ فِيْ أَصْلٍ شَرْعِيٍّ۔ پس اس تحقیق سے واضح ہواکہ حدیث صرف اس عمل کے حسن ہونے پر دلالت کرتی ہے جسے حضراتِ صحابہؓ نے اور اہل ِکمال مجتہدین ؒ نے اچھا سمجھا، ان حضرات کے علاوہ جو عُلَما قرونِ ثلاثہ کے بعد آئے اور جن کو اجتہاد کاکوئی حصہ بھی حاصل نہیں، ان کا پسند کیا ہوا کوئی عمل حسن نہیں ہوگا جب تک کہ وہ چیز کسی اصل ِشرعی میں داخل نہ ہو۔ نیز حضرت مولانا عبدالحی صاحب ؒ بحث کے ختم پر لکھتے ہیں: وَبِالْجُمْلَۃِ، فَھٰذَا الْحَدِیْثُ نِعْمَ الدَّلِیْلُ عَلٰی حُسْنِ مَا اسْتَحْسَنَہُ الصَّحَابَۃُ وَغَیْرُھُمْ مِنَ الْمُجْتَھِدِیْنَ وَقُبْحِ مَا اسْتَقْبَحُوْہُ، وَأَمَّا مَا اسْتَحْسَنَہٗ غَیْرُھُمْ مِنَ الْعُلَمَائِ فَالْمَرْجِعُ فِیْہِ إِلَی الْقُرُوْنِ الثَّلاَثَۃِ أَوْ إِلٰی دُخُوْلِہٖ فِيْ أَصْلٍ مِّنَ الْأُصُوْلِ الشَّرْعِیَّۃِ، فَمَا لَمْ یُوْجَدْ فِي الْقُرُوْنِ الثَّلاثَہِ وَلَمْ یَسْتَحْسِنْہُ أَھْلُ الْاِجْتِھَادِ وَلَمْ یُوْجَدْ لَہٗ دَلِیْلٌ صَرِیْحٌ أَوْ مَا لَمْ یَدْخُلْ فِیْہِ مِنَ الْأُصُوْلِ الشَّرْعِیَّۃِ فَھُوَ ضَلاَلَۃٌ بِلاَ رَیْبٍ وَإِنِ اسْتَحْسَنَہٗ مُسْتَحْسِنٌ۔۱؎ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حدیث اس بات پر بہترین دلیل ہے کہ حضرات ِصحابۂ ؓ اور ان کے علاوہ مجتہدین نے ؒ جس چیز کو اچھا قرار دیاہو وہ اچھی ہے اور جس کو قبیح قرار دیا ہو وہ قبیح ہے، لیکن ان حضرات کے علاوہ دیگر عُلَما نے جس کو اچھا قرار دیا ہو تو اس کے لیے دو باتوں میں سے ایک بات کاہونا ضروری ہے: یا تو قرونِ ثلاثہ میں موجود ہو، یا اصولِ شرعیہ میں سے کسی اصل کے تحت داخل ہوتا ہو۔ پس جو چیز قرونِ ثلاثہ میں نہ پائی جائے اور اہل ِاجتہاد نے اس کو اچھا نہ سمجھا ہو اور اس کی کوئی دلیل صریح بھی موجود نہ ہو یا اصول ِشرعیہ میں سے کسی اصل