براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
شہد کی مکھیوں کو اس کارخانے کا نظام سپرد فرمایا گیا تو ان کو سب سے پہلے حکم فرمایا کہ تم شہد جیسی لطیف نعمت کو رکھنے کے لیے پہلے گھر بنالو: وَ اَوۡحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحۡلِ اَنِ اتَّخِذِیۡ مِنَ الۡجِبَالِ بُیُوۡتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعۡرِشُوۡنَ؎ آپ کے ربّ نے شہد کی مکّھی کے جی میں یہ بات ڈالی کہ تو پہاڑوں میں گھر بنالے یعنی چھتا بنالے اور درختوں میں بھی اور جو لوگ عمارتیں بناتے ہیں ان میں بھی۔ اسی طرح ان علوم اور معارفِ قرآنیہ کے لیے جو کہ شہد سے زیادہ شیریں اور دلوں کی بیماریوں کے لیے شفائے کامل،عاجل،مستمرّ ہیں حضراتِ صحابہ کے سینوں میں رکھنے کے لیے پہلے گھر بنایا گیا۔ جس برتن کی قلعی کرتے ہیں پہلے اس کی خوب منجھائی کرتے ہیں ورنہ اگر برتن پر بدون صفائی کیے ہوئے قلعی کردیں تو قلعی کا اثر کما حقہٗ مرتّب نہ ہوگا۔ یہ تمثیلات ہیں جن سے مقصود توضیح ہے۔ پس تعلیمِ کتاب اور تعلیمِ حکمت کے انوار سے پہلے تزکیۂ نفس ضروری ہے۔ ہمارے حضرت رحمۃ اﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ حدیث پڑھنے کا لطف تو جبھی ہوتا ہے، جب شاگرد بھی صاحبِ نسبت ہو اور استاد بھی صاحبِ نسبت ہو۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم نے اپنی تلاوت اور تزکیۂ نفس کے فیض سے ہر صحابی کو صاحبِ نسبت بناکر تعلیمِ کتاب وحکمت کا صحیح اہل بنادیا تھا۔ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ میں تعلیم کی نسبت حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف ارشاد فرماکر تنبیہ فرمادی کہ ہمارا رسول تمہارا معلّم ہے۔ خود پڑھنے سے کام نہیں بنے گا، استاد کی ضرورت ہے۔ اس میں منکرینِ حدیث کا ردّ ہے کیوں کہ تعلیمِ کتاب اور تعلیمِ حکمت کے بغیر قرآن کا سمجھنا ممکن نہ تھا۔ اس آیت میں استدلال موجود ہے کہ قرآن کو ہمارا رسول تلاوت کرے گا۔ صرف تمہارے پڑھنے سے کام نہیں چلے گا۔ جب ------------------------------