براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
چوں ز رویش مرتضیٰ شُد درخشاں گشت او شیرِ خدا در مرجِ جاں جبکہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کی ذاتِ مبارک سے درخشاں ہوئے یعنی علومِ نبوّت کو پہچاننے والے ہوئے تو آپ جان کی چراگاہ میں شیرِ خدا ہوگئے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کے احسانات اور فیوض و برکات قیامت تک امّت پر ہوتے رہیں گے۔ ہمارے حضرت مرشد رحمۃ اﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ولایت کی کرسیاں اب بھی خالی نہیں ہیں، سب پُر ہیں، اب بھی غوثِ پاک کی کرسی پر بیٹھنے والے لوگ موجود ہیں۔ اس وقت حضرت رحمۃ اﷲ علیہ پر ایک حالت غالب ہوگئی اور فرمایا ؎ ہنوزاں ابرِ رحمت درفشاں ست خم و خمخانہ بامہر و نشاں ست حق تعالیٰ نے کفّارِ عرب سے ہٰذِہٖ سَبِیۡلِیۡ فرما کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کی عجیب شان بیان فرمادی یعنی حق تعالیٰ نے اپنے راستے کو اپنے محبوب رسول صلی اﷲ علیہ وسلّم کی طرف نسبت فرما کر یہ بتادیا کہ ؎ ہم تمہارے تم ہمارے ہوچکے دونوں جانب سے اشارے ہوچکے حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کفّار اور مشرکینِ عرب سے فرما رہے ہیں کہ یہ میرا راستہ ہے۔ ہٰذِہٖ سَبِیْلِیْ یہ راستہ میرا اس قدر بدیہی ہے کہ ہر وقت تمہارے مشاہدات میں ہے۔ اے کفّارِ عرب! تم اپنی ایذا رسانیوں کو دیکھو اور میرے صبر کے پہاڑ کو دیکھو۔ تم ہم کو مجنوں سمجھتے ہو،تم ہم کو شاعر کہتے ہو، تم ہم کو جادوگر کہتے ہو اور کبھی کاہن کہتے ہو، یہ سب کچھ تو سامنے کہتے ہو اور پسِ پشت نہ جانے کیا کیا افتراء کرتے ہوگے اور میرا حلم و صبر تم دیکھتے ہو کہ میں تمہاری ان ایذا رسانیوں کے بدلے بجائے انتقام لینے کے تمہاری ہدایت کے لیے دعائیں کرتا ہوں، اور ہر وقت گھلتا رہتا ہوں حتّی کہ میں جن کا رسول ہوں وہ فرما رہے ہیں کہ اے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلّم)! کیا ان کی ہدایت کی حرص اور دل سوزی