براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
اعتبار سے جداگانہ ہوتی ہے اس لیے روح جیسی لطیف شئے کے لیے لطیف غذاؤں کا انتظام فرمایا ہے۔ حضرت عارف رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ نخلِ خارستاں غذائے آتش ست بوئے گل قوتِ دماغ سرخوش ست خاردار درخت آگ کی خوراک ہوتے ہیں اور پھول کی خوشبو پاکیزہ دماغ کی غذا ہوتی ہے۔ جامہ پوشاں را نظر بر گاذر است روحِ عریاں را تجلّی زیور است جامہ پوشوں کی نظر یعنی اہلِ ظاہر کی نظر دھوبیوں پر ہوتی ہے تاکہ ہروقت سفید پوشی رہے اور عریاں روح کے لیے حق تعالیٰ کی تجلیات زیوریعنی سببِ زینت ہیں۔ حق تعالیٰ پودوں کی جڑوں اور تنوں کو اس کی کثافتِ مزاج کے مطابق کثیف غذا عطا فرماتے ہیں اور کلیوں اور پھولوں کو خوشبو پیدا کرنے والی لطیف غذا عطا فرماتے ہیں۔ جب مادیات کے اندر کثافت اور لطافتِ مزاج کے اعتبار سے ان کی تربیت کے لیے کثیف اور لطیف غذا کا فرق ہوجاتا ہے تو ارواح تو مادی کثافتوں سے بالکل ہی مجرّدہیں ان کے لیے مادی غذائیں کہاں راس آسکتی تھیں۔ اس لیے حق تعالیٰ نے ارواح کے لیے اس کی زیادہ لطافت کی مناسبت سے اس کی تربیت کا ایک ایسا مستقل نظام قائم فرمایا جو اس مادی نظام سے بالکل الگ تھلگ ہے اور اس نظام کی باگ جن نفوسِ مقدّسہ کے سپرد فرمائی گئی ان کو انبیاء اور رسل کہتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے ان مقبول بندوں پر اپنے مقرب فرشتوں کے ذریعے اپنے نورانی احکامات اور تعلیمات کے صحیفے اور کتب کو نازل فرمایا جن کے ذریعے ان پاکیزہ رجال نے اپنے اپنے زمانوں میں ارواح کی تربیت کا کام انجام دیا۔ تربیت کی تعریف یہ ہے کہ کسی شئے کو تدریجاً اس کے درجۂ کمال کو پہنچادینا۔ روح کی تربیت کا درجۂ کمال یہ ہے کہ ا س کے اندر ایسی صلاحیت اور قوتِ ملکوتیہ پیدا ہوجائے جس سے اس کی اصل آواز نعرۂ لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَ ہوجائے۔یعنی دنیا جو ایک امتحان کی جگہ ہے اس کے ظاہر اور فانی نقش و نگار کی اصل حقیقت سے مطّلع