براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
انسانی کے بارے میں محض ظنی ہے یقینی نہیں، اس لیے انسان بتقاضائے فطرت وخلقت مجبور اور محتاج ہے کہ اس کے مقصدِ حیات سے اس کو اس کا خالق مطلع کرے اور اس مقصدِ حیات کے لیے اپنے قانون سے بھی مطلع فرماوے۔ حق تعالیٰ خالق ہیں،وہ جانتے ہیں کہ اس انسان کے اندر مثلاً غضب کا مادہ کیوں ہے، فلاں میں کس مصلحت سے کم ہے ۔ کسی انسان میں کسی رذیلہ کا غلبہ ہے، کسی انسان میں کسی رذیلہ کا۔ کوئی غضب کا بیمار ہے تو کوئی شہوت کا بیمار ہے ،کوئی دونوں کا بیمار ہے جس شخص کو جس نوعِ مجاہدہ سے اپنے تک پہنچانا ہوتا ہے اس کے اندر اسی مقدار سے اس نوع کا مادہ رکھ دیتے ہیں، طُرُقُ الْوُصُوْلِ اِلَی اللہِ بِعَدَدِ اَنْفَاسِ الْخَلَا ئِقِ ۔ ؎ کسی کو صبر کی راہ سے پہنچاتے ہیں کسی کو شکر کی راہ سے پہنچاتے ہیں۔ جن سے نبوّت ورسالت کا کام لینا ہے ان کی خمیر میں انوارِ نبوّت و رسالت رکھ دیتے ہیں۔ جن کو مجدّد بناکر مبعوث فرماتے ہیں ان کی خمیر میں تجدیدی صلاحیت و استعداد رکھ دیتے ہیں۔ جس انسان کے اندر جو خلق رکھا گیا ہے وہ عبث نہیں ہے۔ مولانا فرماتے ہیں ؎ شہوتِ دنیا مثالِ گلخن است کہ از و حمامِ تقویٰ روشن است خواہشاتِ نفسانیہ کے تقاضوں کو جب مرضیاتِ الٰہیہ میں جلا دیا جاتا ہے تو اس سے تقویٰ کے انوار پیدا ہوتے ہیں اور انوارِ تقویٰ سے حق تعالیٰ کی محبّت و معرفت نصیب ہوتی ہے۔ اور جب تک ہم کوحق تعالیٰ کی رضامندی اور ناراضگی کا قانون نہ معلوم ہوگا اس وقت تک ہم اپنی ان خواہشات کے صحیح اور غلط دونوں مواقع اور مصارف کے صحیح علم سے واقف نہیں ہوسکتے۔ خلاصہ یہ کہ انسان چوں کہ مخلوق ہے اور مخلوق کو نہ اپنی طبیعت و مزاج کا یقینی علم ہوتا ہے نہ دوسری مخلوقات کا، اور جب علم نہیں تو ایک ایسا اجتماعی اور ابدی قانون بنانا جس میں ارواح اور اجسام کے تمام مصالحِ دنیویہ و اخرویہ کا پورا پورا لحاظ ہو اور وہ قانون ------------------------------