براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
اور زمین میں متعدد خدا ہوتے تو آسما ن وزمین سب تباہ ہوجاتے کیوں کہ ایک خدا ایک فعل کا ارادہ کرتا دوسرا اس کے خلاف کا ارادہ کرتا پس جنگ شروع ہوجاتی۔ اگر کوئی مشرک کہے کہ ہرخدا آپس میں صلح و اتفاق سے کام کیا کرے تو اس کا جواب یہ ہے کہ صلح کی ضرورت اسی وقت ہوتی ہے جب ایک دوسرے کا محتاج ہوتا ہے اور محتاج ہونا منافیٔ الوہیت ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے سورۂ اخلاص میں اَللہُ اَحَدٌ کے بعد اَللہُ الصَّمَدُ فرما کر یہ بتادیا کہ اَللہُ اَحَدٌ میں جو دعوائےتوحید کیا گیا ہے متصلاً ہی ہم اس کی دلیل بھی بیان فرماتے ہیں وہ دلیل اَللہُ الصَّمَدُ ہے،ہماری احدیت کی دلیل ہماری صمدیت ہے۔ کیوں کہ اشتراک کا منشا احتیاج ہوتا ہے اور ہماری ذات احتیاج سے پاک و بے نیاز ہے،یہ قرآن کا عجیب اعجاز ہے کہ جہاں دعویٰ ہے وہیں اس کی دلیل ہے،اپنی شانِ صمدیت کی اطلاع فرما کر بتا دیا کہ خداو ہی ہوسکتا ہے جو خود تو بے نیاز ہو اور دوسروں کو با نیاز کردے ؎ سب کو ان کی احتیاج اور وہ ہیں سب سے بے نیاز واجب اور ممکن کی اک تنویر یہ بھی لاجواب واضح ہونا چاہیے کہ اصولِ اسلام سب کے سب عقلی ہیں اسی لیے قرآن میں جگہ جگہ اصول کی دعوت کے ساتھ ارشاد ہوتا ہے لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ان باتوں میں دلائل ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل رکھتے ہیں۔ یَعْقِلُوْنَ سے اسی طرف اشارہ ہے کہ اصولِ اسلام سب عقلی ہیں اور فروع کا عقلی ہونا ضروری نہیں۔ البتہ کسی دلیلِ عقلی قطعی کے خلاف نہ ہونا ضروری ہے۔ افسوس ہے کہ آج کل کے نوجوان طبائعِ اسلام کے جزئیات اور فروع کو بھی عقل سے سمجھنا چاہتے ہیں اور اصول و فروع میں فرق نہ سمجھنے سے عجب چکر میں پڑجاتے ہیں جس کا اخیر انجام بد دینی ہے۔ (فائدہ از بیان القرآن) اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت کی ایک کھلی اور عام فہم دلیل یہ بھی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم تک ہر نبی نے اپنے اپنے زمانۂ نبوّت میں توحید کا اعلان فرمایا ہے۔ اگر کوئی خدا اور بھی ہوتا تو وہ بالیقین ہر زمانے کے نبی سے