براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
کمیات کے علم سے زیادہ اہم خیالات اور وساوس کا علم ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں: وَ قَالُوۡۤاءَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا ءَ اِنَّا لَمَبۡعُوۡثُوۡنَ خَلۡقًا جَدِیۡدًا اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ کیا جب ہم ہڈیاں اور چورا ہوجائیں گے تو کیا ہم ازسرِ نو پیدا اور زندہ کیے جاویں گے: قُلۡ کُوۡنُوۡا حِجَارَۃً اَوۡ حَدِیۡدًا ﴿ۙ۵۰﴾ اَوۡ خَلۡقًا مِّمَّا یَکۡبُرُ فِیۡ صُدُوۡرِکُمۡ ۚ فَسَیَقُوۡلُوۡنَ مَنۡ یُّعِیۡدُنَا ؕ قُلِ الَّذِیۡ فَطَرَکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ؎ آپ فرمادیجیے کہ تم پتھر یا لوہایا کوئی اور مخلوق ہوکر دیکھ لو جو تمہارے ذہن میں بہت ہی بعید ہو،اس پر وہ پوچھیں گے کہ وہ کون ہے جو ہم کو دوبارہ زندہ کرے گا ؟آپ فرمادیجیے کہ وہ،وہ ذات ہے جس نے تم کو اوّل بار پیدا کیا ہے: وَ لَقَدۡ عَلِمۡتُمُ النَّشۡاَۃَ الۡاُوۡلٰی فَلَوۡ لَا تَذَکَّرُوۡنَ؎ تم اپنی پہلی پیدایش میں دلیلِ قیامت کا مشاہدہ کرنے کے باوجود پھر بے سمجھی کی باتیں کیوں کرتے ہو؟کوئی دہریہ کوئی مرتد کوئی ملعون اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتا کہ انسان نطفے سے پیدا کیا جاتا ہے اور نطفہ خون سے بنتا ہے اور خون غذاؤں سے بنتا ہے اور یہ غذائیں تمام عالم میں منتشر ہوتی ہیں پس جبکہ انسان کی پہلی پیدایش کے وہ ذرّات جو تمام عالم میں منتشر اور حیات سے بہت بعید تھے قدرتِ الٰہیہ سے جمع ہوکر ایک بار حیات کو قبول کرچکے ہیں تو مرنے کے بعد جب پھر وہ ذرّات منتشر ہوجائیں گے تو پھر حق تعالیٰ شانہٗ کی قدرت سے ان ذرّاتِ منتشرہ کے دوبارہ جمع ہوکر زندہ ہوجانے میں کیا اعتراض اور تعجب ہوسکتا ہے جبکہ وہ ایک بار حیات قبول کرچکنے سے حیاتِ ثانوی کی صلاحیت اور استعداد بھی حاصل کرچکے ہیں۔اسی کو حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: اے نادان انسان!تو کہتا ہے: مَنۡ یُّحۡیِ الۡعِظَامَ وَ ہِیَ رَمِیۡمٌ ------------------------------