براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
اَوَ لَمۡ یَرَ الۡاِنۡسَانُ اَنَّا خَلَقۡنٰہُ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ کیا آدمی کو یہ نہیں معلوم کہ ہم نے اس کو نطفے سے پیدا کیا ہے۔ اسی سوال میں میاں نے علمِ عظیم سمودیا ہے۔اب انسان اسی سوال میں غور کرکے اپنے خالق کو پہچان لے اور قیامت کے دن پر جو اشکال تھا اس کو حل کرلے۔ یہ کلام اﷲ کا اعجاز ہے، یہ حکمتِ بالغہ ہے۔ قرآن اور حدیث میں سب کچھ موجود ہے مگر جس بندے پر میاں چاہتے ہیں اپنے علوم کھول دیتے ہیں، جب وہ چاہتے ہیں تو پردہ ہٹادیتے ہیں اور جب پردہ ہٹ جاتا ہے تو ایک ہی آیت میں انسان ڈوب جاتا ہے، اسی جگہ مست ہوکر رہ جاتا ہے، اسی ایک آیت کی لذّت اس کو آگے نہیں بڑھنے دیتی۔ یہی تو بات تھی کہ جناب سیدنا حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم پوری رات سجدے کی حالت میں صرف ایک آیت تلاوت فرماتے رہے،اس آیت کی لذّت نے وہیں روک لیا: اِنۡ تُعَذِّبۡہُمۡ فَاِنَّہُمۡ عِبَادُکَ ۚ وَ اِنۡ تَغۡفِرۡ لَہُمۡ فَاِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ؎ اور اگر آپ عذاب دیں ان لوگوں کو تو یہ آپ کے بندے ہیں اور مالک اپنے ملک کا اور مملوک کا مختار ہے، جو چاہے سو تصّرف کرے اور اگر آپ بخش دیں ان لوگوں کو تو بے شک آپ عزیز اورحکیم ہیں۔ ظاہر ہے کہ رحمۃ للعالمین سیّدنا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلّم کے قلبِ مبارک پر اس آیت کا کیا اثر ہوا ہوگا اور پھر حق تعالیٰ شانہٗ سے عرض و معروض اور مناجات کا معاملہ تھا ؎ سجدہ مچلا تھا جبیں ناز میں تھی نعرۂ مستانہ خوش می آیدم تا ابد جاناں چنیں می بایدم (رومیؔ) ------------------------------