براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
پیدا ہونا عین اقتضائے فطرت ہے۔ جب ایک انسان کے احسان سے یہ اثر پیدا ہوتا ہے تو پھر جس ذات نے پیدا فرمایا ہے جو حقیقی مالک اور محسن ہیں ان کے احسانات کا کیا اثر ہوگا ؎ جرعہ خاک آمیز چوں مجنوں کند صاف گر باشد ندانم چوں کند جس ذاتِ پاک نے پیدا فرمایا اور ہر وقت طرح طرح کے احسانات اور انعامات سے نوازتے رہتے ہیں مخلوقات کا کوئی لمحہ اور کوئی سانس جس کی نعمت اور احسان سے خالی نہیں ہے ان کی محبت کا اور ان کی ملاقات کا شوق کس درجہ ہوگا؟ظاہر ہے اس فطری خواہش کی تکمیل کے لیے حق تعالیٰ نے جنّت میں اپنی ملاقات اور دیدار کا وعدہ فرمایا ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں: وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ ﴿ۙ۲۲﴾ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ بہت سے چہرے تو اس روز بارونق ہوں گے اور وہ لوگ اپنے پروردگار کی طرف دیکھتے ہوں گے۔ اگر کوئی کہے کہ دنیا میں اس خواہش کی تکمیل کا وعدہ کیوں نہیں فرمایا؟ تو جواب یہ ہے کہ مادیات کے اندر تجلیات کا تحمل نہیں۔ دنیا میں ایمان اور اعمالِ صالحہ کے انوار سے آنکھیں بنائی جارہی ہیں اور قیامت کے دن یہ آنکھیں کھول دی جائیں گی،پس قیامت کا دن اگر حق تعالیٰ نے مقرر نہ فرمادیا ہوتا تو صالحین بندے ان کے دیدار سے اپنی فطری خواہش کی تکمیل کیسے کرسکتے۔ دنیا میں اس خواہش کی تسکین کے لیے حق تعالیٰ نے اپنا گھر بنادیا ہے تاکہ غلبۂ شوق میں ہمارے بندے کہیں اپنی جانیں نہ تلف کردیں،اس لیے کہ ہم کو نہیں دیکھ سکتے تو ہمارے گھر کا طواف ہی کرکے تسلّی حاصل کرلیں۔ ریاض خیر آبادی نے خوب کہا ہے ؎ کعبہ سنتے ہیں کہ گھر ہے بڑے داتا کا ریاض زندگی ہے تو فقیروں کا بھی پھیرا ہوگا بعض حاجیوں کو تو صرف بیت اﷲ کی زیارت نصیب ہوتی ہے اور بعض حاجیوں کو جو عارفین اور عاشقین ہوتے ہیں ان کو اسی گھر میں کچھ اور بھی نظر آتا ہے۔ حضرت