براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
فیصلہ ہوا۔آگے اہلِ ایمان کا فیصلہ مذکور ہے کہ خدا سے ڈرنے والوں کے لیے بے شک کامیابی ہے یعنی کھانے اور سیر کو باغ جن میں طرح طرح کے میوے ہوں گے اور انگور (یہ تخصیص بعد التعمیم اعتناء ِشان کے لیے ہے) اور دل بہلانے کو نو خاستہ ہم عمر عورتیں ہیں اور پینے کو لبالب بھرے ہوئے جامِ شراب، اور وہاں نہ کوئی بے ہودہ بات سنیں گے اور نہ جھوٹ کیوں کہ یہ باتیں وہاں محض معدوم ہیں،یہ تو ان کو نیکیوں کا بدلہ ملے گا جو کہ کافی انعام ہوگا آپ کے رب کی طرف سے،جو مالک ہے آسمانوں اور زمین کااور ان چیزوں کا جو دونوں کے درمیان میں ہیں اور جو رحمان ہے اور کسی کو اس کی طرف سے مستقل اختیار نہ ہوگا کہ اس کے سامنے عرض و معروض کرسکے۔ یہاں کئی صفتیں ارشاد ہیں رَبِّ السَّمٰوٰتِ الخ جو دال ہے مالک تصرفاتِ واقعہ یومِ قیامت پر، اور رحمان جو مناسب ہے جزائے مؤمنین کے اور لَا یَمْلِکُوْنَ الخ جو مناسب ہے تخویف کافرین کے اور مستقل کی قید پر آگے استثناء اِلَّا مَنْ اَذِنَ الخ دلیل ہے، آگے تقریر ہے لَا یَمْلِکُوْنَ الٰخ کی یعنی جس روز تمام ذی ارواح اور فرشتے خدا کے روبرو صف بستہ خشوع و خضوع کے ساتھ کھڑے ہوں گے،اس روز کوئی بول نہ سکے گا بجز اس کے جس کو رحمان بولنے کی اجازت دے دے اور وہ شخص بات بھی ٹھیک کہے۔ ٹھیک بات سے مراد وہ بات جس کی اجازت دی گئی ہے یعنی بولنا بھی محدودو مقید ہوگا۔ یہ نہیں کہ جو چاہے بولنے لگے۔ اور مستقل اختیار سے اوپر یہی مراد ہے۔ آگے اوپر کے تمام مضامین کا خلاصہ ہے کہ یہدن جس کا اوپر ذکر ہوا یقینی دن ہے، سو جس کا جو جی چاہے اس کے حالات سن کر اپنے رب کے پاس اپنا ٹھکانا بنارکھے یعنی نیک عمل کرے کہ وہاں نیک ٹھکانا ملے گا۔ آگے اتمامِ حجت ہے کہ لوگو! ہم نے تم کو ایک نزدیک آنے والے عذاب سے ڈرایا ہے جو کہ ایسے دن میں واقع ہونے والا ہے جس دن ہر شخص ان اعمال کو اپنے سامنے حاضر دیکھ لے گا جو اس نے اپنے ہاتھوں کیے ہوں گے اور کافر حسرت سے کہے گا: کاش !میں مٹی ہوجاتا۔ (تاکہ عقاب سے بچتا، اور یہ اس وقت کہے گا جب بہائم مٹی کردیے جاویں گے رواہ فی الدّرعن ابی ہریرۃیا وہ معنیٰ مراد ہوں جو سورۃ النساء لَوْ تُسَوّٰی بِہِمُ الْاَرْضُ میں گزرے ہیں) (بیان القرآن )