براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
گا جیسے بہت سے دروازے ملا کر بہت سی جگہ کھلی ہوتی ہے۔ پس کلام مبنی ہے تشبیہ پر،اب یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ دروازے تو آسمان میں اب بھی ہیں پھر اس دن دروازے ہونے کے کیا معنیٰ۔ اور یہ کھلنا نزولِ ملائکہ کے لیے ہوگا جیسا سورۂ فرقان میں تَشَقَّقُ السَّمَآءُ؎ سے تعبیر فرمایا ہے اوراس کی شرح وہاں گزری ہے) اور اپنی جگہ سے پہاڑ ہٹادیے جائیں گے سو وہ ریت کی طرح ہوجائیں گے وَلِقَوْلِہٖ تَعَالٰی کَثِیۡبًا مَّہِیۡلًا؎ اور یہ واقعات نفخۂ ثانیہ کے وقت ہوں گے۔ البتہ تسییرِ جبال میں یہاں بھی اور جہاں جہاں واقع ہو دونوں احتمال ہیں یا تو نفخۂ ثانیہ کے بعد کہ اس سے سب عالم بِہَیْئَتِہٖعود کر آوے گا۔ جب حساب کا وقت آوے گا پہاڑوں کو زمین کے برابر کردیا جائے گا تاکہ زمین پر کوئی آڑ پہاڑ نہ رہے،سب ایک ہی میدان میں نظر آویں کہ اَدْخَلَ فِی الْہَیْبَۃِ ہے اور یا یہ نفخۂ اولیٰ کے وقت ہوگا۔ جس سے خود افناء مقصود بالذات ہوگا۔ پھر اس تقدیر پر یوم کو ان سب واقعات کا ظرف فرمانا اس بنا پر ہوگا کہ نفخۂ اولیٰ سے نفخۂ ثانیہ تک کا مجموعہ ایک یوم قرار دے لیا گیا۔ وَاللہُ اَعْلَمُ۔ آگے اس یوم الفصل میں جو فیصلہ ہوگا اس کا بیان ہے۔ یعنی بے شک دوزخ ایک گھات کی جگہ ہے یعنی عذاب کے فرشتے انتظار اور تاک میں ہیں کہ کافر آویں تو ان کو پکڑتے ہی عذاب کرنے لگیں اور وہ سرکشوں کا ٹھکانہ ہے،جس میں وہ بے انتہا زمانوں پڑے رہیں گے اور اس میں نہ تو وہ کسی ٹھنڈک یعنی راحت کا مزہ چکھیں گے اور اس سے ز مہریر کی نفی نہیں ہوئی اور نہ پینے کی چیز کا جو کہ مسکن عطش ہو بجز گرم پانی اور پیپ کے،یہ ان کو پورا بدلہ ملے گا۔ اور وہ اعمال جن کا یہ بدلہ ہے یہ ہیں کہ وہ لوگ حسابِ قیامت کا اندیشہ نہ رکھتے تھے اور ہماری ان آیتوں کو جن میں حساب و دیگر امورِ حقّہ کی خبر تھی خوب جھٹلاتے تھے اور ہم نے ان کے اعمال میں سے ہر چیز کو ان کے نامۂاعمال میں لکھ کر ضبط کر رکھا ہے،سو ان اعمال پر ان کو مطلع کرکے کہاجاوے گا: اب ان اعمال کا مزہ چکھو کہ ہم تم پر سزا ہی بڑھاتے چلے جائیں گے۔ یہ تو کافروں کا ------------------------------