براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
میں ہوں اور حشر تک اس در کی جبیں سائی ہے سرِ زاہد نہیں یہ سر سرِسودائی ہے عجیب بلاغت ہے۔ صرف رکوع اور سجدے کو بیان فرماکر یہ بتادیا کہ کمالِ عظمتِ حق و کبریائی ان کے پیشِ نظر ہے، اور غلبۂ انہماک و شغف پر نیز غایت درجہ مطیع ہوجانے پر بھی لطیف اشارہ ہے۔ جن کے قلوب کفر اور شرک سے مردہ تھے، ان قلوب میں معیت اور صحبتِ رسول پاک نے کیسی ایمانی حیات بخشی ہے کہ ہر فرد عشقِ الٰہی سے کشتہ نظر آرہا ہے۔ دن میں ہاتھوں میں تلوار ہے، اور چپکے چپکے بزبانِ حال کہہ رہے ہیں کہ ؎ سرِ دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی میدانِ جہاد ہے اور سرِمیدان کفن بردوش دارم کے نعرے بلند ہورہے ہیں۔ اور راتوں میں کیا ہورہا ہے؟ رکوع اور سجدے میں عظمتِ الٰہی کے سامنے جھکے ہوئے ہیں۔ آدھی رات ہے، سارے عالم میں سنّاٹا ہے مگر اس رات کے سناٹے میں یہ معیتِ رسول کے پروردہ چرخ انسانیت کے اختر اپنے اﷲ کو یاد کر کے رو رہے ہیں، گویا ہر صحابی بزبانِ حال ناطق ہے کہ ؎ اب اور ہی کچھ ہے مرے دن رات کا عالم ہر وقت ہے اک اُن سے مناجات کا عالم اک بے تعلقی سی بس اب ہر کسی سے ہے اک ربطِ مستقل جو میسّر کسی سے ہے اے وہ کہ جس نے خلق سے آزاد کردیا امید ہے کسی سے نہ اب ڈر کسی سے ہے اور یہ تمام اعمال یعنی شدت علی الکفار اور رحمت فیما بینہم اور یہ رکوع سجدے کس غرض کے لیے ہیں؟ اﷲ تعالیٰ ان کے صدق اور اخلاص کی شہادت میں فرمارہے ہیں کہ یہ اپنے تمام کارناموں سے صرف میرا فضل اور صرف میری رضا ڈھونڈتے رہتے ہیں۔