براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
فرمایا تاکہ خاکی اور مادّی نگاہیں اس نور پر ٹھہر سکیں اور رسالت کا مقصد پورا ہوسکے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کی روحِ پاک لوگوں کو حق تعالیٰ کی طرف جاذب تھی ؎ نورِ حقی و بحق جذاب جان خلق در ظلمات وہم و بدگمان پس نورِ محمدی صلی اﷲ علیہ وسلّم کو اس حکمت کی تکمیل کے لیے پردۂ بشریت میں بھیجا مگر ہر شئےکا پردہ صاحبِ پردہ کی عزّت اور قیمت کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ آپ کی قیمت ظاہر ہے کہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔ آپ کی خمیر کے لیے حق تعالیٰ شانہٗ نے کرۂ زمین کے اجزائے لطیف کو منتخب فرمایا،یہ اجزاء اس قدر لطیف تھے کہ ان سے زیادہ لطیف اجزاء ہوہی نہیں سکتے تھے۔ کسی مخلوق کو وہ لطافت نہیں دی گئی۔ پہلے ہی سے یہ اجزاء آپ کے لیے منتخب فرمالیے گئے تھے۔ پس حضور صلی اﷲ علیہ وسلّم کے خمیر کے اجزائے لطیفہ اس قدر لطیف تھے کہ صرف خاک کے ہم رنگ تھے ورنہ بوجہ غایتِ لطافت نور سے اقرب و اشبہ تھے، اس نور کے ذریعے کتاب کی تلاوت اور تبیین کرائی جائے گی۔ تلاوت اور تبیین میں فرق ہے۔ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ؎ ہمارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلّم ہماری آیاتِ قرآنیہ کو لوگوں سے بیان فرماتے ہیں، ایسے علوم بیان فرماتے ہیں کہ علمائے یہود و نصاریٰ دنگ رہ جاتے ہیں ؎ یتیمے کہ ناکردہ قرآن درست کتب خانۂ چند ملّت بشست ابھی قرآن پورا اترا بھی نہ تھا کہ تمام کتب خانے اس اُمّی رسول کے سامنے سرد پڑگئے۔ حضرت عارف فرماتے ہیں کہ ؎ صد ہزاراں دفترِ اشعار بود پیشِ حرفِ اُمّیش آں عار بود ------------------------------