کرام مدفون ہیں۔بعض کتابوں میںلکھا ہے کہ جس جگہ حضورﷺ کا جسد مبارک زمین سے لگا ہوا ہے زمین کا وہ حصہ عرش سے افضل ہے۔ یہ فضیلت جزوی ہے۔
۱۱۔ ’’لَنُرِیَہُ مِنْ اٰیٰتِنَا‘‘ (تاکہ ہم اس کے بندے کو اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں) کسی چیز کو نشانی کہنا یہ اس کے بڑے ہونے اورعظیم الشان ہونے کی علامت ہے ۔ خاص طور پر آسمان میں جو نشانیاں دیکھیں اور انبیا کرام علیہم السلام سے جوملاقات ہوئی ، یہ نشانیاں زمین کی نشانیوں سے افضل ہیں۔ اسی لئے صاحب روح المعانی نے اس کی تفسیر میں فرمایا ہے کہلنریہ من آیٰتنا کا مطلب ہے کہ ہم انہیں آسمانوں پر لے جائیں اور اپنی قدرت کے عجائبات دکھائیں۔ اس آیت میں اشارہ ہے کہ آپ ﷺ کے مسجد اقصی سے آگے آسمانوں پر لے جایا گیا۔ آسمان پر لے جانے کو صاف طور پر بیان نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ بہت عجیب بات ہے کہیں کوئی شخص انکار سے کافر نہ ہوجائے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی بندوں پر شفقت کی علامت ہے ۔
۱۲۔ مِنْ اٰیٰتِنَا ۔ یعنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ تمام نشانیاں نہیں دکھائیں۔جیسے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے قلم چلنے کی آوازیں سنیں ۔ یعنی قلم کو دیکھا نہیں۔
۱۳۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاسبحان الذی اسریٰ (وہ پاک ذات جو لے گئی)۔ یہ نہیں فرمایا کہ میں لے گیا۔ تاکہ اور زیادہ عظمت کا اظہار ہو۔