نہیں تھی تو وہاں لے جانے کی کیا ضرورت تھی؟اس کاجواب یہ ہے کہ مسجد تو اصل زمین ہی ہوتی ہے مسجد کی عمارت تو تبعًا مسجد ہوتی ہے ۔ اس مسجد سے مسجد کی زمین ہی مراد لی گئی ہے ۔
دوسرا سوا ل یہ ہوتا ہے کہ کفار نے جو آپ ﷺ سے مسجد کے بارے میں سوالات کئے اور حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے جوابات دیے توجب مسجد نہیں تھی تو ان سوالات وجوابات کا کیامطلب؟ اس کاجواب یہ ہے کہ گری ہوئی عمارت ہی کی ہیئت وصورت کے بارے میں سوال کیا ہوگا۔ یا مسجد اقصی کی زمین کے آس پاس لوگوں نے مسجد اقصیٰ کے نام سے عمارتیں بنالی ہوں۔ ممکن ہے ان عمارتوں کے بارے میں سوال کیا ہو۔
۱۰۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ جملہ ’’الذی بارکناحولہ‘‘( کہ ہم نے اس کے آس پاس کو بابرکت بنایا ہے ) مسجد اقصی کی تعریف میں بڑھایا ہے ۔جب آس پاس کا علاقہ باوجود مسجد نہ ہونے کے بابرکت تھا تو مسجد کتنی زیادہ بابرکت ہوگی ۔ مسجد اقصیٰ کے آس پاس دو قسم کی برکتیں ہیں (۱) دینی (۲) دنیوی ۔ دینی برکت دنیا وی برکت سے زیادہ ہے۔ اور دینی برکت یہ بھی ہے کہ اکثر انبیاء کرام کی عبادت کا مرکز بیت المقدس رہا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ مسجد اقصی میں انبیاء کرام نے عبادت کی ہے تو اس سے بھی وہاں دینی برکت خوب ہے۔تیسری بات یہ ہے کہ وہاں بہت سے انبیائے