تشریف رکھتے تھے ۔ (تو اس وقت مراد مسجد حرام ہوئی ) اور بعض حدیثوں میں آیا ہے کہ آپ ﷺ حضرت اُمّ ہانی کے گھر میں تھے ( تو اس وقت مراد مکہ ہوا ۔) دونوں حدیثوں میں تطبیق اس طرح ہوسکتی ہے کہ آنحضرت ﷺ حضرت ام ہانی کے گھر ہوں ۔ وہاں سے پہلے حطیم آئے ہوں اور پھر آگے سفر پر تشریف لے گئے ہوں۔
۶۔ مسجد اقصی کا نام مسجد اقصی اس لئے رکھا گیا ہے کہ اقصیٰ کے معنی عربی میں ’’بہت دور‘‘ ہیں کیونکہ مسجد اقصی مکہ سے بہت دور ہے ۔ اس لئے اس کا نام مسجد اقصی رکھا گیا ۔
۷۔ اگرچہ آپ ﷺ کو لیجائے بغیر یہ تمام عجائبات آپ ﷺ کو دکھائے جاسکتے تھے لیکن آپ ﷺ کولیجانے اور سفر کرانے میں زیادہ اکرام اوراظہار شان ہے۔ اس لئے آپ ﷺ کو سفر کرایا گیا۔
۸۔ رات کو لے جانے میں یہ حکمت ہے کہ رات کا وقت خاص تنہائی کا وقت ہے ۔ رات کے وقت بلانا زیادہ خصوصیت کی نشانی ہے ۔
۹۔ مسجد اقصی سے مراد صرف اقصی کی زمین ہے ۔ کیونکہ تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضور ﷺ کے درمیانی زمانہ میں مسجد کی عمارت منہدم کردی گئی تھی۔ جیسا کہ بعد والی آیات’’وَقَضَیْنَا اِلیٰ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ ‘‘ کی تفسیر میں ہوگا۔(بیان القرآن میں)میں مذکور ہوگا۔ سوال یہ ہوتاہے کہ جب مسجد