ملفوظات حکیم الامت جلد 15 - یونیکوڈ |
تھے ـ فرمایا میں تو مولوی عبدالماجد کو لکھا تھا کہ مجھے بھی اس صفت کی وجہ سے کہ مسلمانوں کا خیر خواہ تھا ( غالبا مولانا محمد علی جوہر سے ) محبت تھی ـ کیا اس سے اس کی رائے کا متبع ہو گیا - بھلے مانس نے اس کو چھاپ دیا ـ کیرانہ میں اس کا چرچا ہوا مولوی حبیب صاحب نے جواب دیا کہ یہی رائے سرسید کے متعلق ہمارے بزرگوں کی تھی مگر تھا اھل باطل مجھے تعصب تو ہوتا نہیں گو کر سکتا ہوں ـ میں کہا کرتا ہوں ـ گو کھانا کسی کو نہ آ ئے مگر کوئی کھاتا بھی ہے ؟ میں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اگر محمد علی آ ئے اکرام کروں گا مگر بولوں گا نہیں اور یہ تو اگر گاندھی بھی آ ئے تو اس کے ساتھ بھی کروں گا ـ ایک نجومی کانگریس آیا تھا کئی روز رہا مہمان داری کی اس کو مولوی عبدالحلیم کانپوری نے بھیج دیا تھا ـ اہانت اور اعانت ملفوظ 134 ـ میں کسی کی اہانت نہیں کرتا سوائے اصلاح خواہاں کے مگر یہاں پر بھی اہانت نہیں ہے اعانت ہے اسی سے اصلاح ہوتی ہے ـ راستہ کے آداب ملفوظ 135 ارشاد فرمایا راستہ میں اگر کوئی میرے ساتھ ہو تو اپنے ساتھی کی رعایت کو جی چاہتا ہے اضطرارانہ تکبر ہے نہ ترفع : میں ایک دفعہ گھر سے آ رہا تھا ایک شخص میرے ساتھ ہو گئے میں نے راستہ کا اچھا حصہ ان کیلئے چھوڑ دیا میں ایک طرف ہو گیا ـ میرا پاؤں گڑھے میں پڑ گیا ـ سب کپڑا خراب ہو گیا ـ پھر یہاں آ کر دھویا ـ یہ وہی حضرت رام پور کے تھے جو روک ٹوک کو پسند نہ کرتے تھے ـ یہاں تک کہ اصلاح کے تعلق چھوڑنے پر راضی ہو گئے پھر تو مخدوم مکرم لکھتا تھا ـ میری ایک عادت یہ ہے کہ پیچھے کوئی ہو گرانی ہوتی ہے ـ پھر دیکھا امام ابو یوسف صاحبؒ کے وصایا میں سے ایک یہ وصیت دیکھی کہ اگر پیچھے سے کوئی پکارے تو بولو مت ـ معلوم ہوتا ہے کہ وہ تم کو جانور سمجھتا ہے جانوروں کو پیچھے سے بلایا جاتا ہے پہلے گرانی ہوتی تھی اب یہ تشویش جاتی رہی اب سمجھ میں آیا کہ سلام کرنے سے معلوم تو ہو گیا کون ہے ـ نیز سلام سے معلوم ہوا کہ دشمن نہیں ہے ـ