ملفوظات حکیم الامت جلد 15 - یونیکوڈ |
میں ڈال دیجئے ـ میں صبح کو دیکھ کر کچھ تعلیم کر دوں گا اپنے کام میں مصروف رہئے ـ باقی رہے احوال سو اول تو وہ لازم نہیں پھر اس کے واسطے ایک مدت چاہیے اور یہ بھی فرمایا کہ یہاں لوگوں کو موقع بات چیت کا نہیں ملتا تھا ـ بالخصوص ان لوگوں کو جن پر غلبہ ادب ہوتا ہے وہ ہمیشہ رہ جاتے تھے اور جری لوگ سبقت کر کے مجھے پرچہ دے دیتے تھے لوگوں کی پریشانی کی وجہ سے اور آسانی کے واسطے میں نے یہ بکس رکھ دیا ہے کہ ہر شخص بے تکلف اپنے حالات لکھ کر ڈال دے میں جواب دے دیتا ہوں اور اگر کسی کو زبانی سمجھانے کی صرورت ہوتی ہے ـ تو وہ یہی لکھ کر بکس میں ڈال دیتا ہے اور میں اس کیلئے خود وقت مقرر کر دیتا ہوں ـ علماء کی بے جا شکایت ملفوظ 117 ـ ایک مرتبہ نواب وقارلملک مجھےعلی گڑھ کالج میں لے گئے اور وہاں کے طلباء کی بھی کثرت سے درخواستیں تھیں ـ میرا وہاں بیان ہوا ـ میں نے اول ہی کہا کہ صاحبو ! آپ لوگوں کو یہ شکایتیں ہیں کہ علماء ہماری خبر نہیں لیتے ـ آپ لوگوں میں سے کوئی شخص امراض جسمانی میں مبتلا ہوتا ہے تو فورا ڈاکٹر اور طبیب کی طرف رجوع کرتا ہے اور وہاں کامیابی نہیں ہوتی ـ دوسری جگہ جاتے ہیں یہاں تک کہ ہر جگہ سے ناکام ہو کر سول سرجن کے پاس جاتے ہیں ـ غرض جب تک صحت نہیں ہوتی ـ اسی دھیان اور دھن میں لگے رہتے ہیں ـ اب میں آپ سے قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ جو معاملہ آپ حضرات ان امراض کے مصلح کے ساتھ کرتے ہیں وہی معاملہ امراض باطنی کے معالجین کے ساتھ کرتے ہیں اگر ایک جگہ سے ناکامیابی ہوئی تو دوسری جگہ رجوع کرتے ہیں اور اسی طرح تیسری اور چوتھی جگہ علی ہذا بس دینی معاملات میں اول تو آپ لوگوں نے ایک یہ خیال قائم کر لیا ہے کہ ہمارے برابر کوئی جانتا ہی نہیں اور بعضوں کی تو یہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے کہ وہ دین ہی کو ضروری نہیں سمجھتے اور دوسرے اگر کسی کو توفیق رجوع کرنے کی ہوئی بھی تو ایک شخص سے دریافت کر لیا وہ بھی ان شرائط کے ساتھ نہیں ـ جن شرائط سے ڈاکٹر کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں ـ اب اگر ایک جگہ سے شفاء نہیں ہوئی ـ اور یہ ممکن ہے جیسے امراض ظاہری میں یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی طبیب سے آرام ہو جائے تو آپ لوگ دریافت کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں اور یہ فیصلہ کلی کر لیتے ہیں کہ