براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
ہمہ از بہرِ تو سرگشتہ و فرماں بردار شرطِ انصاف نباشد کہ تو فرماں نہ بری ترجمہ:اے انسان! تیری پرورش کے لیے ابر، ہوا، آفتاب، آسمان سب اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں تاکہ جب تو ہاتھ میں روٹی لے تو غفلت کے ساتھ اسے نہ کھالے بلکہ یہ سوچ کر کھائے کہ یہ روٹی جو میرے ہاتھ میں اس وقت موجود ہے کتنے مراحل سے گزر کر میرے ہاتھ تک پہنچی ہے۔ حق تعالیٰ نے اپنی کتنی مخلوقات سے اس روٹی کے لیے کام لیا ہے۔ عالمِ ارواح میں ربوبیتِ الٰہیہ کی صرف اجمالی معرفت عطا فرمائی گئی تھی اور دنیا میں اسی اجمالی ربوبیت کی تفصیل دکھائی گئی ہے۔ اسی تفصیلی معرفت کے لیے حق تعالیٰ نے بندوں کو سراپا محتاج پیدا فرمایا ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں وَاللہُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ؎ بظاہر تو اس آیت میں حق تعالیٰ نے بندوں کو اپنا محتاج اور فقیر فرمایا ہے لیکن درحقیقت تاجِ شاہی ہمارے سروں پر رکھ دیا ہے۔ یعنی اس آیتِ کریمہ میں ہمیں یہ بشارت دے دی کہ تمہاری احتیاج و فقر کی پستی سے تم پر ہماری مہربانیاں ہوا کریں گی۔ من نہ کردم خلق تا سودے کنم بلکہ تا بر بندگاں جودے کنم حق تعالیٰ کے جس قدر اسمائے حسنیٰ ہیں وہ در اصل صفات ہیں اور بندوں کو اپنی ہر صفت کا محتاج اس لیے فرمایا ہے کہ بندوں کو جملہ صفاتِ الٰہیہ کی تفصیلی معرفت نصیب ہوجائے۔ ہر حاجت کو اسمائے حسنیٰ الٰہیہ میں سے کسی نہ کسی اسم ِپاک سے خاص تعلّق ہوتا ہے۔ مثلاً بندوں کے عیوب صفتِ ستّاریت کے محتاج ہیں اور ذنوب صفتِ غفاریّت کے محتاج ہیں، ادھر ہم عیب دار ہیں تو وہ ستّار العیوب ہیں، ادھر ہم گناہ گار ہیں تو وہ غفار الذنوب ہیں، ہم محتاجِ رزق ہیں تووہ رزّاق ہیں، ہم ضعیف ہیں تو وہ قوی ہیں۔ یوں تو کائناتِ عالم کا ذرہ ذرہ ہروقت اپنے وجود اور بقا میں صفاتِ الٰہیہ کا مظہر ہے لیکن انسان مجموعی طور پر تمام ------------------------------