براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
پر اپنی رحمت کو عام فرمادیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلّم کی جن صفاتِ حمیدہ کا پَر تو کفار کو بھی فیض پہنچا رہا تھا حق تعالیٰ نے ان کا تذکرہ اس عنوان سے قرآن میں بیان فرمایا ہے: لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ؎ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہمارے رحمۃ للعالمین کی شانِ رحمت کا تعلّق کفّار اور مشرکین کے ساتھ یہ ہے کہ ان کی تکلیف ہمارے رحمۃ للعالمین پر شاق ہے،ان کے ایمان پر حریص ہیں اور مؤمنین کے ساتھ کیسا تعلق ہے؟ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ایمان داروں کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلّم کی رحمت کا تعلق کفّار اور مؤمنین کے ساتھ عام ہے لیکن آپ صلی اﷲ علیہ وسلّم کی رافت کا تعلق مؤمنین کے ساتھ خاص ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلّم کفّار کے ایمان لانے پر جس درجہ حریص تھے اس کو حق تعالیٰ نے سورۂ کہف میں اس عنوان سے ارشاد فرمایا ہے: فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفۡسَکَ عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ اِنۡ لَّمۡ یُؤۡمِنُوۡا بِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ اَسَفًا ؎ ترجمہ:سو شاید آپ ان کے پیچھے اگر یہ لوگ اس مضمون پر ایمان نہ لائے تو غم سے اپنی جان دے دیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلّم کو اپنی امت سے کس درجہ تعلق ہے اور امت کی نجات کے لیے آپ کو کس درجہ فکر تھی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلّم کی اس صفتِ خاص سے معلوم ہوا کہ تبلیغ کا کام علیٰ سبیل النیابۃ ان ہی اشخاص سے اﷲ تعالیٰ لیتے ہیں جو بندگانِ خدا کی ہدایت کے لیے دل میں تڑپ رکھتے ہیں اور اسی تڑپ اور دل سوزی کی وجہ سے مخلوقِ خدا کی طرف سے ایذا رسانی اور جورو ستم پر تحمل آسان ہوتا ہے ورنہ بمصداق اس شعر کے نتیجہ مرتّب ہوتا ہے ؎ ------------------------------