براھین قاطعہ |
ہم نوٹ : |
|
لکھنؤ میں ایک بزرگ مولانا شاہ وارث حسن صاحب رحمۃ اﷲ علیہ تھے حضرت امداداﷲ صاحب مہاجر مکی کے خلیفہ تھے اور حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی رحمۃ اﷲ علیہ کے شاگرد تھے، ہمارے حضرت رحمۃ اﷲ علیہ کو بہت مانتے تھے،اپنی مسجد میں ہمارے حضرت کا وعظ بیان کرایا تھا، جو’’ الصلوٰۃ‘‘ کے نام سے طبع ہوا ہے۔ان ہی بزرگ کی خدمت میں ایک مولوی صاحب حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضرت!شخصیت اور صحبت کی کیا ضرورت ہے جبکہ ہمارے پاس قرآن اور حدیث کی تعلیمات محفوظ ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اچھا پھر تم صحابی بن جاؤ۔ انہوں نے کہا کہ صحابی بننے کے لیے تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلّم کی صحبت ضروری ہے۔ تو ان بزرگ نے فرمایا کہ اچھا تابعی بن جاؤ۔ تو مولوی صاحب نے جواب دیا کہ تابعی بننے کے لیے صحابی کی صحبت ضروری ہے۔ پھر ان بزرگ نے فرمایا کہ اچھا پھر تبع تابعی ہوجاؤ۔ مولوی صاحب نے جواب دیا کہ تبع تابعی بننے کے لیے تابعی کی صحبت ضروری ہے۔ پھر ان بزرگ نے فرمایا کہ آپ تو کہہ رہے تھے صحبت کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے،کتابیں ہمارے لیے کافی ہیں، لیکن آپ خود شروع ہی سے صحبت کی ضرورت ثابت کرتے چلے آرہے ہیں۔ مولوی صاحب نے اسی مجلس میں اقرار کیا کہ بے شک ہم غلط فہمی میں تھے، صحبت نہایت ضروری ہے۔ جج اکبر ؔالٰہ آبادی نے خوب فرمایا ہے ؎ نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا ٭٭٭٭