کہ حجر اسود کو اس کی جگہ پر میں رکھوں ۔قریب تھا کہ ان میں لڑائی جھگڑا ہوتا اور ہتھیار چلنے لگتے، آخر قوم کے عقلمندوں نے مشورہ دیا کہ جو مسجد حرام کے دروازہ سے سب سے پہلے آئے سب اس کے فیصلہ پر عمل کریں۔ چنانچہ سب سے پہلے تشریف لانے والے آپ ﷺ تھے ، ہ دیکھ کر سب کہنے لگے یہ محمد (ﷺ) ہیں امین ہیں، قریش آپ ﷺ کو نبوت سے پہلے امین کے لقب سے یاد کرتے تھے ،چنانچہ سب نے آپ ﷺ کی خدمت میں یہ معاملہ پیش کیا ، آپ ﷺنے فرمایا: ایک بڑاکپڑا لائو، ایک بڑا کپڑا لا یا گیا ۔ آپ ﷺ نے حجر اسود اپنے سینہ مبارک سے اس کپڑے میں رکھا اور فرمایا: ہر قبیلہ کا آدمی اس چادر کا ایک ایک کنارہ پکڑ لے اور خانہ کعبہ تک لائے، جب حجر اسود کی جگہ تک پہنچ گیا تو آپ ﷺ نے حجر اسود کو خود اُٹھا کر اس کی جگہ پر رکھ دیا۔(۳)
اس فیصلہ سے سب راضی ہوگئے اُٹھانے کا شرف تو سب کو حاصل ہوگیا اور چونکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب آدمی مجھ کو اس کی جگہ پر رکھنے کے لئے اپنا وکیل بنادیں جب اور وکیل کا کام اپنا ہی کا شمار ہوتا ہے، اس طرح گویا سب رکھنے میں بھی شریک ہوگئے۔(۴)