اور سنتی کہ آپ ﷺ یتیم ہیں تو قبول نہیں کرتی (کیونکہ زیادہ انعام واکرام کی امید نہ ہوتی اور ادھر حضرت حلیمہ کودودھ کی کمی کی وجہ سے کوئی بچہ نہ ملا) میں نے اپنے شوہر سے کہا: یہ اچھامعلوم نہیں ہوتا کہ میں خالی جائوں! میں تو اس یتیم بچہ ہی کو لے آتی ہوں۔ شوہر نے کہا: بہتر ہے شاید اللہ تعالیٰ برکت دے ۔ غرض میں آپ ﷺ کو لے آئی۔ جب اپنی قیام گاہ پر آئی اور آپ ﷺ کو گود میں لے کر میں دودھ پلانے بیٹھی تو اس قدر دودھ آیا کہ آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے رضاعی بھائی نے خوب آرام سے پیا اور آرام سے سوگئے۔ میرے شوہر نے جب اونٹنی کو جا کے دیکھا تو اس کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے تھے۔ غرض انہوں نے دودھ نکالا اور ہم سب نے خوب سیر ہو کر پیا، اور رات بڑے آرام سے گزری۔ اس سے پہلے ہمارے نصیب میں سونانہیں تھا ، شوہر کہنے لگا :اے حلیمہ تُو تو بڑی برکت والے بچے کو لائی ہے۔ میں نے کہا ہاں ، مجھ کو بھی یہی امید ہے ۔ پھر ہم مکہ سے روانہ ہوئے میں آپ ﷺ کو لے کر اسی دراز گوش (گدھے کے لئے یہ لفظ ادبًا استعمال کیا گیا ) پر سوار ہوئی۔ اب تواس کا یہ حال تھا کہ کوئی سواری اس کی تیز رفتاری کے سبب اس کو پکڑ نہ سکتی تھیں۔ میری ہمسفر عورتیں تعجب سے کہنے لگیں ، حلیمہ: ذرا آہستہ چلو کیا، یہ وہی دراز گوش ہے جس پر تم آئی تھی؟ میں نے کہا: وہی ہے وہ کہنے لگیں: لگتا ہے کوئی خاص بات پیش آئی ہے ہم اپنے گھر پہنچے، اگرچہ وہاں سخت قحط تھا لیکن میری بکریاں دودھ سے بھری ہوتیں