کرنے کی فکر میں پڑ گئے تھے جیسا کہ احادیث میں ہے۔ اور اس فکر پر اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس آپﷺ کے سامنے کر دیا ۔ آپﷺ نے بتا دیا۔(مسلم)
اشکال: بعض حضرات کو شبہ ہو ا کہ قرآن کریم میں ہے وما جعلنا الرؤیا یعنی معراج رؤیا (بمعنی خواب) ہے ۔
جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ یہ آیت مبارکہ غزوہ بدر یا صلح حدیبیہ کے بارے میں ہے معراج کے بارے میں نہیں ہے۔
دوسرا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ رؤیا کے معنی جیسے ’’خواب‘‘ کے ہیں اسی طرح اس کے معنی بیداری کی حالت رات کو دیکھنے کے بھی ہیں۔ اگر اس آیت کا تعلق معراج کے ساتھ قائم کیا جائے تو یہاں رؤیا رات کو دیکھنے کے معنی میں ہے۔ (روح المعانی)
اشکال: بعض حضرات کو حضرت شریک ؓ(راوی حدیث) کی حدیث سے شبہ ہو سکتا ہے کہ معراج نیند کی حالت میں ہوا۔ کیوں کہ اس حدیث کے آخر میں ہے ثم استیقظت پھر میں بیدار ہو گیا۔
جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت شریک کو کسی بھی محدث نے حافظ حدیث شمار نہیں کیا تو ان کا یہ اضافہ چونکہ محدثین سے ثابت نہیں لہٰذا قابل اعتبار نہیں۔ (روح المعانی)