ہیں:’’یھلک اﷲ فی زمانہ الملل کلھا غیرالاسلام‘‘{یعنی اس(عیسیٰ علیہ السلام) کے زمانے میں اﷲ تعالیٰ اسلام کے سوا تمام مذاہب کومٹا دے گا۔}یہاں تین صدیوں کا کوئی ذکر نہیں۔ ایسا عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد ان کی زندگی میں ہی ہونا ہے۔چونکہ مرزاقادیانی کی زندگی میں ایسا نہیں ہوا۔سو وہ اپنے دعویٰ مسیحیت میں کاذب ہیں۔
سوال نمبر:۵۴… ص۶۷پر لکھتے ہیں:’’آپ بھی خاتم النبیین کے بعدایک تابع اورامتی نبی کے بطور مسیح موعود آنے کے قائل ہیں اور ہم بھی ایک امتی کو آنحضرت ﷺ کے نائب النبوت کے طور پرمسیح موعود مانتے ہیں۔پس خاتم النبیین کے ان معنوں میں کہ رسول کریمﷺ شریعت لانے والے نبی ہیں ۔ ہم دونوں اصولی طور پر متفق ہیں۔ ہم میں اورآپ میں صرف مسیح موعود کی شخصیت کے تعین میں اختلاف ہے۔اس کے امتی نبی کے منصب میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘
جواب… ہم نہ تو امت محمدیہ میں سے کسی شخص کے نبی ہونے کے قائل ہیں اور نہ کسی کے بطور مسیح موعود آنے کے ۔گزشتہ صفحات میں تصریح ہوچکی ہے کہ اسرائیلی مسیح عیسیٰ علیہ السلام اصالتاً نبی اکرمؐ کی امت میں بطور خلیفہ آئیں گے۔ایک حدیث میں یہ بھی گزر چکا ہے کہ نبی کریمﷺ امت محمدیہ کے اول میں ہیں اورعیسیٰ علیہ السلام اس کے آخر میں۔ آخر میں اسی صورت میں ہو سکتے ہیں جبکہ نزول کے بعد ایک نئی امت کھڑی نہ کریں۔یعنی بطور نبی کے نہ آئیں۔
گزشتہ صفحات میں مرزاقادیانی کا یہ اعلان بھی نقل کیا جا چکا ہے کہ ان کا دعویٰ مثیل مسیح کا ہے۔جسے کم فہم لوگ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ سمجھ بیٹھے ہیں۔ جب مرزاقادیانی کا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ ہی نہیں توآپ کو آنحضرت ﷺ کے نائب النبوت کے طور پر مسیح موعود ماننے کے تکلف میں کیوں پڑتے ہیں۔ اس طرح تو بقول مرزاقادیانی آپ کم فہم لوگوں میں شمارہوں گے۔ ہم ان معنوں میں نبی کریمﷺکو خاتم النبیین نہیں مانتے کہ وہ آخری صاحب شریعت نبی ہیں اور ان کے بعد غیر تشریعی نبی آسکتا ہے۔ ہم مطلقا ً نبوت کے نبوت محمدی کے ساتھ ختم ہونے کے قائل ہیں۔نہ ان کے بعد کوئی تشریعی نبی آسکتا ہے اور نہ غیر تشریعی۔ البتہ ایک سابق نبی آنحضرتﷺ کے خلیفہ کے طورپر آسکتا ہے۔کیونکہ وہ بحیثیت نبی اوررسول کے آکر ایک نئی امت کو جنم نہیں دے گا۔
(حمامۃ البشری ص۹،خزائن ج۷ص۱۸۵)پرمرزاقادیانی لکھتے ہیں:’’یقولون ان ھذا الرجل لایؤمن بالملئکۃ ولا یعتقدبان محمدﷺ خاتم الانبیاء ومنتھی