مولانامحمدعلی اپنی تفسیر بیان القرآن میں یوں لکھتے ہیں:’’حضرت عیسیٰ و یحییٰ علیہما السلام دونوں کے لئے کتب سابقہ میں کچھ پیشین گوئیاں تھی۔حضرت یحییٰ علیہ السلام کے متعلق پیشین گوئی ملاکی نبی کی کتاب میںان الفاظ میں تھی’’دیکھو خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پیشتر میں الیاس نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا۔‘‘(ملاکی ۴،۵)
بظاہر اس پیش گوئی میں الیاس کے آنے کاذکر ہے اورالیاس کے متعلق یہودیوں کا یہ خیال تھا کہ وہ زندہ آسمان پر چلاگیا اور یہ صرف خیال ہی نہیں تھا۔ بلکہ ان کی کتاب میں یہ الفاظ بھی تھے کہ :’’ایلیاہ بگولے میں ہوا کے آسمان پر جاتارہا۔‘‘(۲سلاطین ۱،۱۱)
اب حضرت مسیح نے دعویٰ کیا تو یہودیوں نے اس پر یہ اعتراض کیا کہ ہماری پیشین گوئیوں میں لکھا ہے کہ مسیح سے پیشتر ضروری ہے کہ الیاس علیہ السلام آئے۔ چنانچہ شاگردوں نے یہ اعتراض حضرت مسیح علیہ السلام کے سامنے پیش کیا۔انہوں نے جواب دیا ’’الیاہ تو آچکا اور انہوں نے اس کو نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اس کے ساتھ کیا۔اسی طرح ابن آدم بھی ان کے ہاتھ سے دکھ اٹھائے گا۔‘‘ اس کے بعدلکھا ہے ’’تب شاگرد سمجھ گئے کہ اس نے ہم سے یوحنا بپتسمہ دینے والی کی بابت کہا۔‘‘(متی ۱۷،۱۳،۱۲ لوقا ۱)
اوردوسری جگہ اس کی وجہ یوں دی ہے :’’اور ایلیاہ کی روح اورقوت میں اس کے آگے آگے چلے گا۔‘‘ گویا یحییٰ کی آمد ہی الیاس کی دوبارہ آمدتھی۔اس لئے وہ اس کا مثیل ہو کر آیا۔ مگر یہودی اس تشریح سے مطمئن نہیں ہوئے۔
مثیل مسیح کی حقیقت
اس سے جماعت احمدیہ نتیجہ نکالتی ہے کہ حضرت عیسیٰ کی جگہ مثیل عیسیٰ آناتھا جو آچکا۔ آؤ ذرا اس کی حقیقت کی چھان بین کریں۔ ملاکی نبی کا ذکر انسائیکلو پیڈیا برٹیانیکا کے چودھویں ایڈیشن کے ص ۷۰۲،۷۰۳ پر ہے۔ وہ ڈاکٹر ہنری راہنس جیسے فاضل کالکھا ہواہے۔ جس کومذہبی تحریر لکھنے میں خاص مہارت ہے اوروہ ۱۹۲۰ء سے ریجنٹ پارک کالج لندن کاپرنسپل ہے۔
ملاکی کتاب (۴،۶)میں یہ پیشگوئی درج ہے :’’دیکھو خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پیشتر ہی ایلیاء نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا اور وہ باپ کا دل بیٹے کی طرف اور بیٹے کا باپ کی طرف مائل کرے گا۔ مبادا میں آؤں اورزمین کو ملعو ن کروں۔‘‘
ملاکی کی کتاب کے یہ آخری الفاظ ہیں۔ڈاکٹر رابنسن صاحب کہتے ہیں کہ یہ حصہ غالبا ً