مرزاقادیانی اوراس کی امت کے خیال کو ہم ایک فرد کی رائے کا نام دے کر ایک دفعہ اس سوال کو بھی یہاںدوہرانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کی جو پوزیشن بنائی ہے۔اس کے پیش نظر قرآن کا یہ حال کیوں ہوگیا ہے کہ وہ ایک آدمی کی سمجھ میں بیٹھتا ہے اورپوری مسلمان قوم اس کے فہم سے محروم رہ رہی ہے۔ایک کتاب جو خدا نے نازل فرمائی ہے۔اس کی رسوائی اب اس انتہاء کو کیوں پہنچ گئی ہے کہ نبوت اور ختم نبوت جیسے اہم عقیدہ میں بھی اس کا بیان صاف اور واضح نہیں رہا۔اس مفروضہ کے لئے کون سی بنیاد موجودہے کہ ایک آج کے آدمی کی رائے درست اور صدیوں پہلے اوراب کے روئے زمین پر رہنے والے سب مسلمانوں کی بات غلط۔ اب تک تمام مسلمان مدعی نبوت کو کافرکہنے پرمتفق چلے آئے ہیں۔ مگر قادیانی کہتے ہیں کہ وہ تشریعی مدعی نبوت کے حق میں تھا۔بہت خوب!مگر یہ نکتہ مسلمانوں کے علم میں کیوں نہیں آسکا؟
قرآن پر بہتان…مثیلوں کا سیلاب
’’قرآن کریم وحدیث صحیحہ‘‘ یہ بشارت متواتر دے رہی ہیں کہ مثیل ابن مریم اور دوسرے مثیل بھی آئیں گے۔‘‘(ازالہ اوہام ص۴۱۲،خزائن ج۳ص۳۱۴) ’’قرآن مسیح بن مریم کو مارتا ہے‘‘ اورحدیثیں مثیل ابن مریم کے آنے کا وعدہ دیتی ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۳۶، خزائن ج۳ ص۳۹۹) جہاں ایک سائنسدان یا ڈاکٹر لوگوں کو ایسے جراثیم کا حال بتاتا ہو جو دوربین سے نظر آتے ہیں یا بالکل نظر نہیں آتے تو بے چارے دوربین وخوردبین سے ناواقف ہوتے ہیں وہ ان جراثیم کاوجود مان لیتے ہیں۔ ایسے لوگ بے شک سادہ دل اوران پڑھ ہوتے ہیں۔ مگر ایک شرط وہ بھی ان کے ماننے میں لگاتے ہیں اوروہ یہ کہ انہیں جراثیم کا حال بتانے والے ڈاکٹر پہاڑوں، دریاؤں اورہاتھی اونٹوں کا انکار نہ کریں۔اگر وہ جراثیم کا سراغ لگانے کے ساتھ ان بڑی چیزوں کا انکار کرنے لگیں تو عوام اسے ڈاکٹر کی بجائے پاگل کا نام دیتے ہیں۔ کیونکہ جسے پہاڑ نظر نہ آئیں ، وہ جراثیم کیا دیکھے؟
ہماری الجھن یہ ہے کہ ایک شخص جو نبی ،مجدد،مسیح،مہدی تمام انبیاء کامظہر اورسب کچھ ہے۔ وہ جو بات قرآن کے متواتر مقامات پر پاتا ہے اور نہ صرف ایک حدیث میں۔بلکہ درجنوں احادیث میں بتاتا ہے۔ وہ نہ ہمیں قرآن میں کہیں دکھائی دیتی ہے اورنہ کسی حدیث میں۔
دوسری عبارت میں مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ: ’’قرآن عیسی علیہ السلام کو مارتا ہے۔‘‘ کتنا بڑا جھوٹ ہے یہ جو انہوں نے قرآن کے خلاف روا رکھا ہے اوراسے رٹتے رٹتے نہیںتھکے۔