مقابلہ سے فرار
اشاعۃ السنۃ کے صفحات میں لکھا ہے کہ اس سے پہلے کتاب دافع الوسواس کی زبان غلطیاں اورفتح الاسلام وتوضیح المرام کے کلمات کفر کے متعلق ۸۵سوالات کا جواب اور مرزا احمد بیگ کی موت کے متعلق جواب پیش کیاجائے اورپھر یہ سوال ہوگا کہ تم نجوم اور رمل اور مسمریزم سے واقف ہو۔پھر جوابات کے جو اب کا جواب پوچھا جائے گا۔سلسلہ وار پھر ہم پوچھیں گے کہ مقابلہ کی عربی تفسیر لکھنا ملہم ہونے کی کیا دلیل ہے۔اس کے علاوہ ملہم ہونے کی اور دلیل کیا ہے۔ ان مراحل سے گزرنے کے بعد تفسیر عربی اورقصیدہ نعتیہ میں مقابلہ کیا جائے گا۔‘‘
(کرامات الصادقین ص۲۳،خزائن ج۷ص۶۴،۶۵)
مرزا قادیانی کہتے ہیں کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کو ہم نے تفسیر میں مقابلہ کرنے کو کہا۔ اس کے ہمراہ دوسرے علماء بھی تھے اوراس نے مقابلہ کی یہ شرائط پیش کیں جو اوپر درج ہیں اور اس پر ہم نے میدان چھوڑ کر بھاگے بغیر چارہ نہ دیکھا اوربھاگ آئے۔یہ ہے امتی کے ہاتھوں پیغمبر کی پٹائی کی واحد مثال۔ بھلا بتائیے ان شرائط میں کون سی بات بے جا ہے؟جس شخص کو اپنی سچائی پر یقین ہو وہ ہر ٹیڑھی چال کا مقابلہ کر کے غالب آتا ہے اورکبھی پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لیتا۔ٹھیک مرزا قادیانی کی اسی سنت پر اب قادیانیوں کا عمل ہے۔انہیں اگر کوئی مرزا قادیانی کی باتوں کو موضوع بنانے کو کہے تو وہ نہایت شاندار جرأت کے ساتھ میدان سے بھاگ آتے ہیں۔کیونکہ وہ جانتے ہیںکہ ان کی کسی بات کو سیدھادکھانا محال سے زیادہ مشکل ہے۔
بزرگان امت پر بہتان
قادیانی کہتے ہیں کہ تیرہ بزرگ مرزاقادیانی کو نبی ماننے کے قائل ہیں۔ حضرت عائشہ، امام راغب اصفہانی، محی الدین ابن عربی، ملا علی قاری،مولانا روم، پیران پیر سید عبدالکریم جیلانی، جناب عبدالوہاب شعرانی، محمدطاہرگجراتی،حضرت شاہ ولی اﷲ،مولانا عبدالحئی لکھنوی، مولانا محمد قاسم نانوتوی، نواب صدیق حسن خان۔
پہلے چار بزرگوں کو انہوں نے جس طرح اپنا بنالیا ہے۔اس کا پول ہم نے دو کتابوں میں کھولا ہے۔مولانا عبدالحئی نے حضرت مسیح کے قیاس سے غیر شارع نبی کو دوسری زمینوں میں