جس وقت جس طرح اورجو چاہے پیداکرنا سنت اﷲ کے خلاف ہے،صحیح نص قرآنی کے منشاء کے مطابق نہیں۔بلکہ سنت اﷲ وہی ہے جو مذکورہ بالا آیات میں تفصیلاً بیان کی گئی ہے۔
ولادت مسیح کے متعلق قرآن اورعیسائیوں کی کتب۱؎ مقدسہ کا نکتہ نظر
سرسید لکھتے ہیں کہ: ’’تمام عیسائی تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مریم علیہا السلام کاخطبہ (حضرت یوسف) سے ہواتھا۔یہودیوں کے ہاں خطبہ کا یہ دستورتھا کہ شوہر اورزوجہ میں اقرار ہوجاتاتھا کہ اس قدر میعاد کے بعدشادی کرلیں گے۔‘‘ اس پر سرسید لکھتے ہیں کہ: ’’یہ معاہدے حقیقت میں عقد نکاح تھے۔صرف زوجہ کا گھر میں لانا باقی رہ جاتا تھا اوروہ اس میعاد پر ہوتاتھا ۔جو اس معاہدے میں قرار پائی تھی اورپھر اس پر ایزاد کرتے تھے کہ اگر بعد میں اس رسم کے اورقبل رخصت کرنے کے ان دونوں سے اولاد پیدا ہوجاتی تو وہ ناجائز اولاد تصور نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ بے گناہ شرعی اولاد جائز تصور ہوتی تھی۔شاید خلاف دستور ہونے کی بناء پر معیوب بھی گنی جاتی ہو اوردونوں کے لئے کسی قدر شرم وخجالت کا باعث ہوتی ہو۔‘‘
۱؎ اس مرحلے پر پیشتر اس کے کہ اس پربحث کی جائے،اس غلطی کا رفع کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم لوقا، متی وغیرہ کی کتابوں کاذکرکرتے ہیں ۔جن کو عیسائی نیا عہد نامہ بمقابلہ( تورات جو عہد نامہ عتیق کہلاتی ہے)کہتے ہیں، تو ہم انجیل کہتے ہیں۔حالانکہ انجیل وہ کتاب مقدس تھی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔جیسا کہ سورئہ مائدہ میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:’’وآتینہ الانجیل فیہ ھدی ونور (۴۶)‘‘{اور ا س کو ہم نے دی انجیل جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔}عیسائی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ متی،لوقائ،مرقس اوریوحنا نے اپنی اپنی معلومات کے مطابق حضرت عیسیٰ کی زندگی،حالات اور احکام کو درج کیا ہے اور زیادہ سے زیادہ یہ بموجب انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا،ان میں حضرت کی زندگی کے پچاس دنوں کے حالات ہیں۔ اس لئے ہم لوگوں کو ہمیشہ ان کتابوں کو انجیل یا اناجیل کہنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات زندگی کی کتابیں ہیں۔جن کا بہت سے واقعات کے متعلق آپس میں اختلاف ہے۔باوجود اس کے میراخیال ہے کہ جو واقعات ان چاروں کتابوں میں درج ہوں،اورقرآن کریم میں بھی وہ واقعات اسی طرح بیان کئے گئے ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ پھر بھی ہم ان کی تاویل کریں یا یہ کہیں کہ ایسا نہیں ،ایسا ہوگا۔’’یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ایسے بہت سے واقعات ہیں جن کا ذکرآگے آئے گا۔