خدا کا کلام کرنا۔حواریوں سے بطور الہام خدا کا کلام کرناخود قرآن شریف میں مندرج ہے۔
(براہین احمدیہ ص۲۱۹،خزائن ج۱ص۲۴۲،۲۴۳)
یہ تینوں باتیں جو مرزا قادیانی نے بڑی دلیری کے ساتھ قرآن کے حوالہ سے پیش کی ہیں۔قرآن میں ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں ملتا۔ان کا کوئی امتی اگر یہ قران سے دکھادے تو منہ مانگا انعام پائے گا۔حیرت تو یہ ہے کہ جواﷲ کی کتاب پر جھوٹ جڑتاہے۔کچھ عقل کے اندھے اسے پیغمبر ماننے کو بھی آمادہ ہوجاتے ہیں اورنہیں سوچنے کو جو شخص دنیا میں سورج اوراجالے کی طرح عام پائی جانے والی حقیقت کے بتانے میں جھوٹ سے پرہیز نہیں کرپایا وہ بھلا عالم بالا کی باتوں کے لئے سچائی کا کیا سامان کرے گا۔جہاں کے متعلق اسے معلوم ہے کہ کوئی تحقیق کے لئے نہیں پہنچے گا۔یہ کہنا بجا ہے کہ الہام کالفظ قرآن میں موجود نہیں۔ صرف سورئہ شمس میںاس کاصیغہ نفس انسانی کے حق میں وارد ہے جو بچوں اوربڑوں کے لئے یکساں ہے اورکہیں یہ کلمہ ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔
حیات مسیح
’’اول: اذموجود ہے جو خاص واسطے ماضی کے آتا ہے۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قصہ وقت نزول آیت ماضٗی کا ایک قصہ تھا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۰۲،خزائن ج۳ص۴۲۵)
اس عبارت میں مرزاقادیانی کا اشارہ سورئہ مائدہ کی ایک آیت کی طرف ہے۔ اس کی ابتداء میں ’’اذ‘‘کا حرف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ صرف ماضی کے لئے ہوتا ہے۔مطلب یہ کہ اﷲ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ میں تجھے دنیا سے لے لوں گا اوراپنی طرف اٹھاؤں گا اور کافروں سے پاک کروں گا اورتیرے پیچھے چلنے والوں کو کافروں پر روز قیامت تک فائق کروں گا۔وہ کہتے ہیں کہ اس بیان کے شروع میں چونکہ ’’اذ‘‘ ہے جو صرف ماضی کے لئے ہوتا ہے۔اس لئے حضرت مسیح کو خدا نے جو پانچویں وعدے دلائے تھے۔ وہ گزشتہ زمانہ میں پورے ہوچکے ہیں۔ ہم پوچھتے ہیں کہ ’’اذ‘‘ بھی ماضی کے لئے سہی اورچاروں وعدے بھی گئے۔یہ پانچواں وعدہ جو قیامت کے دن کا ہے۔کیا یہ بھی گزشتہ زمانے کا ہے اورقیامت نہیں آئے گی؟
آپ حیران ہوں گے کہ خود حضرت مسیح کے قصہ میں ’’اذ‘‘ کا کلمہ دو جگہ مستقبل کے لئے موجود ہے۔ کیونکہ اس کے اول وآخر قیامت کابیان ہے۔جو ابھی آنی ہے۔ اس کے علاوہ قرآن میں ’’اذ‘‘ کا جس قدر استعمال مستقبل کے لئے ہے۔اس کاشمار ہونا مشکل ہے۔مگر مرزا قادیانی