ایک اورسوال یہاں یہ سامنے آتا ہے کہ جب مرزا جو مثل نبی اورمثل مسیح تھے۔ حقیقی نبی اور حقیقی مسیح نہ تھے تو انہیں مسلمانوں سے الگ ختم نبوت کے معنے دکھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ان کے ہاں جب نبی کے مثل اورمسیح کے مثل آنے سے ختم نبوت قائم رہتی تھی اور اس میں کوئی فرق نہ آتا تھا تو اس کے بعد انہوں نے امتی نبی یا غیر شرعی نبی کی اصطلاح کیوں نکالی اور یہ کیوں کہا کہ ختم نبوت کے معنے ہیں نبی بنانے والی مہر اور پھر اس پر بھی نہ رہے اور کہا کہ یہ مہر صرف غیر شرعی نبی تراش سکتی ہے نہ کہ دوسرے۔اس طرز عمل کی بنیاد خدا کی شریعت میں تو کہیں نہیں پائی جاتی۔داؤں اورپینتروں کی دنیا میں البتہ اس کا چلن ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب بن جانے کا چکر چلایا تو اس کے بعد تمام انبیاء اور سب شہیدوں صدیقوں کے مثل بن بیٹھے اورکہا کہ سورئہ فاتحہ کی دعا یہی بتاتی ہے اورساتھ ہی بے شمار نسبتوں کے مالک ہوگئے۔
پھر اس بات میں کیا تک ہے کہ قرآن مسیح کو مارتا ہے اورحدیث اس کے مثل کاوعدہ کرتی ہے۔کیا حدیث کا قرآن کے خلاف جانے کے بغیر اور کوئی کام نہیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ قرآن نے ایک آدمی کو مارا اورحدیث نے دوسری طرف اس کے مثل ایک اورلاکھڑا کیا۔اگر قرآن نے حضرت مسیح کو ماراتھا توحدیث بھی اس کو مارنے پراکتفا کرتی۔ اس نے اس کی مثل کااہتمام کاہے کو کیا:
من چہ سرایم وطنبورئہ من چہ سرا
غرض یہ سب دعوے ہیں ایک دوسرے سے زیادہ بے سروپا۔ نہ ان کے حق میں کوئی دلیل ہے اورنہ مرزاقادیانی کے بغیر کوئی اوران کاقائل ہے۔
نزول مسیح اورقرآن
’’صحابہ کامذہب دوبارہ نزول مسیح اجمالی تھا۔حمل نزول مسیح بر معنے حقیقی مخالف قرآن ہے۔‘‘ (تحفہ بغداد ص۷،خزائن ج۷ص۸) ’’آیت قدخلت میں قبلہ الرسل پیش کرکے یہ غلطی دور کر دی اور اسلام میں یہ پہلا اجماع تھا کہ سب نبی فوت ہوگئے ہیں۔‘‘(حقیقت الوحی ص۳۳، خزائن ج۲۲ ص۳۶) ’’معتزلہ تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے قائل ہیں۔(حقیقت الوحی ص۳۰، خزائن ج۲۲ص۳۲حاشیہ) ’’ایک گروہ مسلمانوں کا اس اعتقاد پر جما ہواتھااور میرا بھی یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر نازل ہوںگے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۴۹،خزائن ج۲۲ ص۱۵۲) ’’وحی کی تاویل کی اوراپنا اعتقاد وہی رکھا جو تمام مسلمانوں کا تھا۔لیکن بعد اس کے اس بارہ