اس کے اور ہو بھی کیاسکتا ہے کہ و ہ اپنے سے بڑے نبی کا مخول اڑائے اورلوگوں کو اس پر ہنسائے؟ ہم پوچھتے ہیں کہ نزول مسیح اورختم نبوت کی احادیث میں آخر مجاز کا کتنا حصہ ہے اور عذاب قبر کی احادیث سے ان کا کیاجوڑ ہے اورپھرعذاب قبر کی احادیث میں آج تک کسی مسلمان نے مجاز نہ مانا ہے۔ اگر قبر کے منکر ونکیر کو گائے بھینس کبھی سمجھا جاتا تو اس کے عذاب سے کوئی ڈرتا کب۔ وہ اور ان کے مشنری اس بات کاڈھول پیٹتے ہیں کہ اس وقت روحانی ترقی کے لئے جتنی ضرورت ہے اور پہلے اتنی صدیوں میں اس کی ضرورت نہ تھی۔ یہ بھی تو بے سروپامفروضہ ہے کہ ضرورت نبی کا فلسفہ انسان تصنیف کرنے لگیں اور وہ معیار ماناجائے۔
حقیقت میں ضرورت نبی کی راگنی بالکل زمانہ حال کی ایجاد ہے۔ اﷲ کی طرف سے نبی ہوکر آنے والا کبھی نہیں کہہ سکتا کہ میں کسی کی ضرورت پوری کرنے آیاہوں اور نہ منکر کبھی یہ مان سکتے ہیں کہ اس نے فی الواقع کسی ضرورت کو پورا کیا ہے۔بجائے اس کے نبی یہ بتاتا ہے کہ اﷲ نے مجھے بھیجا ہے اوراس بھیجنے کی ضرورت کا علم اﷲ ہی کو ہے۔چاہے کسی اور کو اس کا علم ہو یا نہ ہو۔پہلے اگر کسی نبی نے اپنی ضرورت کی دوہائی نہیں دی اوراب اس کاڈھنڈوراپیٹاجاتا ہے تو یہ عقیدہ ختم نبوت کے ماحول پراثر نہیں تو اورکیا ہے؟۔ لوگ صدیوں سے عقیدہ ختم نبوت پر پختہ ہیں اور انہیں نئے سرے سے ضرورت نبی کا درس دیاجاتا ہے تاکہ ان کی روحانی ترقی ہو اورپھر اس روحانی ترقی کا راستہ یہ تجویز کیا کہ حدیث اورقرآن اوراﷲ ورسول کی تعلیمات کامذاق اڑایا جاتا ہے۔ یعنی مسلمانوں کو دہر یہ بناکر ان کی روحانی ترقی کاسامان کیاجاتاہے۔نبی توکیا یہ شیوہ ایک مسلمان بلکہ ایک اچھی قسم کے بے دین کا بھی کب ہوسکتاہے اورکیااس حد تک قرآن وحدیث کی پھبتی اڑانے کے بعد آدمی اس قابل رہ جاتا ہے کہ اسے مسلمانوں میں شمار کیاجائے۔
اس کے ساتھ آپ تھوڑا روحانی ترقی کے لئے نبی کی ضرورت اورخاتم النبیین کے روحانی فیض کاموازنہ کریں۔وہ کہتے ہیں کہ خاتم النبیین کا روحانی فیض امت میں نئے نبی بنانے کے لئے قیامت تک جاری ہے۔یعنی وہی روحانی فیض دوسروں کو نبی بنائے گا جو امت کی روحانی ترقی کے لئے کارآمد نہیں اوراس کے لئے نئے بنی کی ضرورت ہے۔یہ روحانی فیض نئے نبی بنانے کو موجود ہے اورامت کی روحانی ترقی کے لئے موجود نہیں۔
تحقیق اورحدیث
’’مقررہ تاریخوں میں ہزارہا عیسائی سال بسال اس قبر پر جمع ہوتے ہیں۔ سو اس حدیث سے ثابت ہوا کہ وہ عیسیٰ کی قبر ہے۔‘‘(ست بچن ص ح،خزائن ج۱۰ص۳۰۹) ’’ہم نے کسی