سے لے کر آنحضورﷺ کے روز وفات تک ۴۷۳۹ برس قمری لحاظ سے ہیں۔ لیکن خدا تعالیٰ نے مرزا قادیانی کو ان کے سرسری اندازہ (یا کہو کہ غلط حساب) پر اطلاع ہی نہ پہنچائی کہ مرزاقادیانی! آپ کا یہ اندازہ سرسری ہے۔حساب غلط ہے۔ گیارہ برس غلط ہیں اور صحیح برس ۲۱ ہیں۔ حالانکہ مرزا قادیانی اس تحریر کے آٹھ برس بعد تک زندہ رہے اورتمام مرید گیارہ برس کی تصدیق کرتے رہے۔
مغالطہ نمبر۱۲
’’حقیقت الوحی اوربراہین حصہ پنجم ۱۲۹۰ھ میںآپ کی عمر چالیس برس بیان کرتے ہیں۔ یہ حضرت اقدس کی آخری تحقیقات ہے۔‘‘
جواب: براہین احمدیہ حصہ پنجم توخیر ۱۹۰۵ء میں لکھی گئی۔ لیکن سب سے آخری ضخیم کتاب چشمہ معرفت سے پہلے ۷،۱۹۰۶ء میں جو لکھی گئی وہ حقیقت الوحی ہے۔
مرزا قادیانی کی آخری تحقیق
(حقیقت الوحی ص۲۰۱حاشیہ،خزائن ج۲۲ص۲۰۹)پرفرماتے ہیں:’’خدا تعالیٰ نے میرے پرظاہر فرمایا ہے کہ سورئہ عصر کے حروف بحساب جمل کے رو سے ابتدائے آدم سے لے کر آنحضرتﷺ تک جس قدر برس گزرے ہیں۔ ان کی تعداد ظاہر کرتے ہیں۔ سورئہ ممدوحہ کی رو سے جب اس زمانہ تک حساب لگایا جائے تو معلوم ہوگا کہ اب ساتواں ہزار لگ گیا ہے اوراسی حساب کی رو سے میری پیدائش چھٹے ہزار میں ہوئی ہے۔ کیونکہ میری عمر اس وقت قریباً ۶۸ سال کی ہے۔‘‘
براہین احمدیہ حصہ پنجم کے حوالہ سے صرف قاضی صاحب ہی نہیں بلکہ ہر ایک قادیانی مغالطہ دیتا ہے۔ہمارے دوست قادیانی حضرات سے یہ سوال ضرور کیاکریں کہ اگر ۱۹۰۵ء میں مرزا قادیانی کی عمر۷۰ برس تھی تو پھر بمقام جالندھر ۱۹۰۵ء میںمرزاقادیانی نے دوران تقریر یہ کیوں فرمایا تھا کہ:’’خدا تعالیٰ ایک مفتری کذاب انسان کو اتنی لمبی مہلت نہیں دیتا کہ وہ حضورﷺ سے بڑھ جائے۔ میری عمر ۶۷ سال کی ہے اورمیری بعثت کا زمانہ ۲۳ سال سے بڑھ گیا ہے۔‘‘
(رسالہ پیغام امام بحوالہ عمر مرزا)