ہے۔ اس نظریے نے مختلف ادوار مختلف نسلوں اورمختلف رنگ روپ کے انسانوں کو ایک لڑی میں پروکر ایک امت بنایا ہے۔اس نے انسان کے ذہنی استفسارات کو مہمیز لگائی ہے اوراس طرح واضح طور پر ایک منفرد تہذیبی تعمیر کے لئے بنیادیں قائم کی ہیں۔
ختم نبوت کے سلسلے میں آنحضورﷺ کا یہ ارشاد بھی پیش نظر رہنا چاہئے کہ میرے بعد تیس جھوٹے مدعیان نبوت آئیں گے لیکن میں خاتم النبیین ہوں۔میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اس ضمن میں یہ تاریخی حقیقت بھی عام پڑھے لکھے لوگوں پر روشن ہے کہ آنحضورﷺ کی حیات طیبہ کے دوران مسیلمہ کذاب نے نبی ہونے کا دعویٰ کیاتھا اور۸ھ میں آنحضورﷺ کو ایک خط بھی لکھا تھا جس کے عنوان میں تحریر کیا:’’من مسیلمۃ رسول اﷲ الی محمد رسول اﷲ‘‘اس کا خیال تھا کہ آنحضورﷺ بھی جواباً اسے اسی طرح لکھیںگے اور یہ تحریر اس کے لئے تصدیق نامہ ہو جائے گی۔لیکن نبی اکرمﷺ نے جواب اس طرح شروع کیا:
M
’’من محمد رسول اﷲ الی مسیلمۃ کذاب۰سلام علی من اتبع الھدی ‘‘اس جواب سے مسیلمہ، کذاب کے نام سے ایسا معروف ہوا کہ ابد تک یونہی معروف رہے گا۔اس نے یہ فیصلہ بھی کردیا کہ آنحضورﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والا ہر شخص کاذب ہے۔
قادیانیت کاظہور
سامراج کی سیاسی بالادستی اورعسکری تسلط کی بدولت اس کے عقب میں غیر ملکی عیسائی مبلغین کا ایک ریلا ہندوستان میںوارد ہوا۔ہندوستان کی مذہبی اورثقافتی زندگی میں ان کی موجودگی نے مسلمانوں کے جذبات میں تلخی گھول دی اوراس طرح سے صورت حالات میں سخت کشیدگی پید اہوئی۔برصغیر کے طول وعرض میں مسلمانوں اور عیسائی مبلغین کے درمیان تند وتیز مذاکروں اورعلمی مباحثوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔اس وقت مسلمان سیاسی طور پر اکھڑے ہوئے عسکری میدان میں شکست خوردہ اور ثقافتی طور پر احساس کمتری کاشکار ہو چکے تھے۔ ایسے مواقع عام طورپر مذہبی اورسیاسی مہم جوؤں کے لئے بہت سازگار ہوتے ہیں اوروہ صورت حال سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ایسے ہی نازک موقع پر قادیانی سلسلہ پنجاب کے ایک دور افتادہ قصبے میں شروع ہوا۔ اس سلسلے کو اس کے سامراجی آقاؤں کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔جدید تحقیقی کوششوں نے یہ بات