جمیل… مزے کی بات تو اب شروع ہونی تھیں۔ مگر خیر کوئی بات نہیں۔ صبح۷ بجے آپ سب صاحبان غریب خانہ پر تشریف لے آئیں اور چائے بھی وہیں نوش فرمائیں۔
حمید… کیوں خالد صاحب!منظور ہے؟
خالد… منظور ہے۔میں صبح انشاء اﷲ حاضر ہو جاؤں گا۔
جمیل… پروفیسر صاحب آپ بھی ضرور تشریف لائیں اورحوالہ کے لئے کتابیں بھی ساتھ لیتے آئیں۔
اختر… بہت اچھا۔ میں ۷ بجے پہنچ جاؤں گا۔ویسے کل چھٹی بھی ہے۔
باب دوم
سات بج گئے اورڈاکٹر صاحب کے مکان پربہت سے احباب جمع ہو چکے ہیں۔ مگر خالد صاحب ابھی تشریف نہیں لائے۔ کیونکہ وہ اس مقابلہ کے لئے اپنے رفیق مولوی منظور الحسن کی تلاش میں ہیں۔ خدا خدا کر کے ساڑھے ۷ بجے وہ ملے اور دونوں مجموعی قوت سے پروفیسر صاحب کو شکست دینے کے لئے آدھمکے۔ یہاں پہلے ہی سے انتظار ہورہا تھا۔لکھے پڑھے لوگوں کا اچھا خاصہ مجمع ہوگیا۔ ڈاکٹرصاحب نے آؤ بھگت کے بعد سلسلہ کلام یوں شروع کیا:
ڈاکٹر جمیل…غالباً سب بھائیوں کومعلوم ہوگا کہ آج ایک نہایت اہم مسئلہ پرگفتگو ہونے والی ہے۔ مسلمانوں کا یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ انبیاء عظام کی توہین کرنا خارج ازاسلام ہوجانے کے مترادف ہے۔جس پر بانی فرقہ احمدیہ مرزا غلام احمد قادیانی کا بھی صاد ہے۔پروفیسر اختر حسین کا یہ دعویٰ ہے کہ مرزا قادیانی خود اپنی تصانیف میں اس کا ارتکاب کر چکے ہیں۔ لہٰذا چہ جائیکہ وہ مسیح مہدی، نبی یا مجدد وغیرہ بن سکیں،سرے سے مسلمان ہی ثابت نہیں ہو سکتے۔چونکہ اختر صاحب کا یہ دعویٰ ایک بہت بڑادعویٰ ہے۔اس لئے میں مسٹر عبدالحمید صاحب بے اے ایل ایل بی اور مسٹر ظہور الدین صاحب ایم اے کو منصف قرار دیتا ہوں کہ وہ فریقین کی گفتگو سننے کے بعد اپنا فیصلہ دیں کہ دلائل کی رو سے کون سچا ہے اور کون جھوٹا؟
حمید… آپ صرف ظہور صاحب کا منصف رہنے دیں۔ میری اس میں کیا ضرورت تھی؟
خالد… نہیں صاحب!آپ کا ہونا بھی ضروری ہے۔ دونوں مل کر ہماری باتوں کا وزن کیجئے۔
اختر… بہت اچھا!لیجئے اب میں اپنے دعویٰ کی دلیل میں مرزا قادیانی کے وہ چند ارشاد پیش