اﷲ تعالیٰ نے ان آیات مبارکہ میں ہر قسم کی مخلوق کی حیات وممات یا اس کے دوبارہ زندہ کرنے کی نسبت حتمی طور پرفرمادیا کہ یہ اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ان آیات کے بعد بھی اگر کوئی نہ مانے کہ اﷲ تعالیٰ بغیر باپ پیدا کرسکتا ہے یااﷲ تعالیٰ کوئی معجزہ کسی پیغمبر کے ہاتھ سے اپنے اذن یاحکم سے ظاہر فرماسکتا ہے،تو اسے اختیار ہے۔قرآن کے الفاظ توصاف ہیں۔
لفظ ’’سنۃ اﷲ‘‘کے معنی میں تدریجی ارتقاء
خرق عادق یامعجزے کے نہ ماننے والے قرآن کریم کی اس آیت کا سہارا بھی لیتے ہیں:’’ولن تجد لسنۃ اﷲ تبدیلا (احزاب:۶۲)‘‘{اور تم اﷲکی عادت میں ہرگز تغیر و تبدل نہ پاؤ گے۔}
اب دیکھنا یہ ہے کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے کون سی اپنی عادت کا اس بارے میں ذکر فرمایاہے؟بہتر ہو گا کہ ہم یہ دیکھیں کہ آیاسنت کے ذکر میں بھی کوئی ارتقاء ہے؟سب سے پہلے لفظ ’’سنۃ‘‘کا ذکر سورئہ الانفال رکوع۵ میں یوں آیا ہے:
’’قل للذین کفروا ان ینتھوایغفرلھم ماقد سلف وان یعودوافقد مضت سنۃ الاولین(الانفال:۳۸)‘‘{تو کہہ دے کافروں کو کہ اگر وہ باز نہ آجائیں تو معاف ہوا ان کو جو کچھ کہ ہوچکا اوراگر پھر بھی وہی کریں توپڑ چکی ہے راہ اگلوں کی یعنی جس طرح اگلے لوگ پیغمبروں کی تکذیب وعداوت سے تباہ ہوئے یا ان کو سزا دی گئی،اس کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیاجائے گا۔
پھر سورئہ حجر رکو ع ۱ میں یوں آیا ہے: ’’مایا تھم من رسول الاّ کانوا بہ یستھزون کذالک نسلکہ فی قلوب المجرمین لایؤمنون بہ وقد خلت سنۃ الاولین (الحجر:۱۲)‘‘{اور نہیں آتا ان کے پاس کو رسول،مگر کرتے ہیں اس سے ہنسی،اس طرح بٹھا دیتے ہیں اس کو دل میں گناہ گاروں کے یقین نہ لاویں گے اس پر اورہوتی آئی ہے رسم پہلوں کی۔}
ارتقاء یہ ہے کہ سورئہ انفال میں پہلے فرمایا تھا کہ اگر وہ باز آجائیں تو ان کو معافی دی جائے گی۔اس جگہ یہ فرمادیا کہ اگر حسب عادت وہ استہزاء اورتکذیب کرتے رہیں گے تو مضائقہ نہیں انجام کار،اﷲ حق کا بال بالا کرے گا۔یعنی کافر یونہی ہمیشہ جھٹلاتے اور ہنسی کرتے آئے ہیں۔